-
مرزاصاحب کی تقریباََ چوراسی تصانیف ہیں
-
ان تصانیف کو جماعت احمدیہ نے روحانی خزائن کے نام سے جمع کر دیا ہے
-
مرزا صاحب کی تصانیف کے اہم موضوعا ت یہ ہیں ۔
-
(١) وفات مسیح
-
(٢) اپنی نبوت کے دلائل
-
(٣) اپنے الہامات
-
(٤) آتھم اور محمدی بیگم کا جھگڑا
-
(٥) پیشگوئیاں
-
(٦) مخالفین کو گالیاں
-
(٧) تاج برطانیہ کی مداح اور اظہارِ وفاداری
-
مرزا صاحب کی کتابوں میں جو چیز بہت واضح طور پر موجود نہیں ہے
-
وہ ہے آج کے انسان کی مشکلات کا حل
-
کیونکہ مرزا صاحب کا سارا مشن اپنی ذات اور خاندان تک محدود تھا
-
لہٰذا جو کچھ انہوں نے لکھا ہے اسی مشن کو سامنے رکھ کر لکھا ہے
-
تفسیر، حدیث، فقہ اور تاریخ کو وہ صر ف ایک ہی مقصد کیلئے استعمال کرتے ہیں
-
اور وہ ہے اپنی نبوت اور مجدد یت کو ثابت کرنا
-
وفات مسیح جیسے مسائل کو تو انہوں نے اس قدر اہمیت دی ہے
-
کہ ان کی کتب میں سے شاید ہی کوئی کتاب اس بحث سے خالی ہو
-
لیکن اس کے برعکس زندہ مسائل جن پر قومی ترقی اور تنزل کا دارو مدار ہے
-
مرزا صاحب کی توجہ سے محروم رہے
-
مرزاصاحب کی تصانیف میں ہمیں بعض اوقات معلومات کی بڑی سنگین غلطیاں نظر آتی ہیں
-
مثلاََ مرزا صاحب اپنی آخر ی تحریر میں فرماتے ہیں
-
تاریخ کو دیکھو کہ آنحضرت ﷺ وہی ایک یتیم لڑکا تھا
-
جس کا باپ پیدائش سے چند دن بعد ہی فوت ہو گیا
-
اور ماں صرف چند ماہ کا بچہ چھوڑ کر مر گئی تھی
-
سیر ت طیبہ کا ہر طالب علم اس بات سے آگاہ ہے
-
کہ حضور ﷺکے والد محترم آپ ﷺ کی ولادت سے چند ماہ پہلے ہی فوت ہو گئے تھے
-
اور آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ کا انتقال پورے چھ سال کے بعد ہوا تھا
-
اور یہ مت بھولیے کہ یہ مرزا صاحب کی آخری تحریر تھی
-
جو انہتر برس کے علمی مطالعہ کا نچوڑ تھی ۔
-
ایک اور جگہ مرزا صاحب فرماتے ہیں
-
اور پھر دیکھا کہ خوارزم بادشاہ جو بوعلی سینا کے وقت میں تھا
-
جبکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ بو علی سینا خوارزم شاہی خاندان کے ظہور سے بیالیس برس پہلے ہی فوت ہو چکے تھے
-
مرزاصاحب کے اقوال پانچ زبانوں میں ملتے ہیں
-
اردو، عربی، فارسی، انگریزی اور پنجابی
-
پنجابی میں صرف ایک آدھ الہام ہے
-
کیونکہ کسی غیر زبان پر قدرت حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے
-
اس لیے مرزا صاحب کی عربی میں زبان اور محاورے کی غلطیاں موجود ہیں
-
کہیں فعل اور فاعل میں مطابقت نہیں
-
کہیں ضمیر اور مرجع میں ہم آہنگی نہیں
-
اور کہیں کہیں تو مرزا صاحب نے عربی پر یہ غضب ڈھایا
-
کہ پنجابی محاورات کو لٹرلی (literally) عربی میں منتقل کر دیا
-
مرزا صاحب کا جو کلام ہے چاہے وہ نثر میں ہو یا نظم میں ہو
-
یہ ان دونوں اصناف بیان میں معمولی ترین درجہ کا کلام ہے
-
مطلب نہ اس میں کوئی حسن اظہار ہے
-
اور نہ اظہار کے جو دیگر ضروری یا تکنیکی یا فنی محاسن ہیں
-
اور وہ ضابطے کی حیثیت رکھتے ہیں
-
اُن پر یہ پورا اترتا ہے
-
ایک عام سے قلم کی تحریر ایک عام سی زبان کی گفتار ہے
-
یہ باور کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے ان کے کلام کو دیکھ کر
-
کہ یہ کسی بھی طرح کی کوئی علمی یا اظہاری خصوصیت رکھتے ہیں اپنے معاصرین میں
-
نبی کے لیے ضروری ہے کہ جواس کا متن دعوت ہو
-
وہ ہر ایک سے فوقیت رکھتا ہو
-
یعنی اپنے مخاطبین میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہو اس کے مخاطبین میں
-
جو اس کی سطح ادراک اور اس کے کمال اظہار کو چیلنج کر سکتا ہو
-
یہ مطلب نبوت کے لوازم میں سے ایک ہے نبی کے خصائص میں سے ایک ہوتا ہے
-
مرزا صاحب کا کلام اس کسوٹی پر پر کھے جانے کا تقاضا ہی نہیں کرتا اس کو کہیں سے بھی دیکھ لیں
-
مثال کے طور پر نثر کے عمدہ نمونے اگر عربی کے منتخب کیے جائیں
-
تو وہ شروع ہی حدیث سے ہوں گے
-
مطلب ان کا منتہا حدیث ہے، آپ ﷺ کا قول ہے
-
اگر ہم اپنی اردو روایت میں یا فارسی روایت میں یا عربی روایت میں
-
نثر کے عمدہ نمونوں کی تلاش شروع کریں
-
تو ہم کبھی رخ کرہی نہیں سکتے ان کی کتابوں کی طرف
-
یعنی ان کا کوئی کارنامہ ایسا نہیں ہے
-
کہ جسے نظم اور نثرکی روایت کے منتخبات میں شامل کیا جاسکے
-
شاعری جو ہے وہ تو کیوں کے ایک خالصتاََ ایک صنف ادب کے طور پر
-
تو میں سمجھتا ہوں میں درثمین میرے ایک دوست تھے عبیداللہ علیم
-
ان کا احمدیت سے تعلق تھا
-
انہوں نے مجھے ایک دفعہ کتاب دی تھی میں نے دیکھا
-
تو میں سمجھتا ہوں کہ ادبی نقطہ نظر سے شعری نقطہ نظر سے
-
وہ کوئی بہت اعلیٰ معیار کی کتاب نہیں ہے
-
اور جیسے کلام منظور اس کو کہہ لیجئے
-
ادب بھی آپ اس کونہیں کہہ سکتے ہیں اس میں تعصب کی بات نہیں ہے
-
جو بھی اس کو پڑھے گا تو میری بات سے اتفاق کرے گا
-
مثلاََ جو ان کے ہم عصر ہیں جیسے فرض کیجئے غالب کے بعد سے اور اقبال ہیں
-
اس کے زمانے کے جو شعراء ہیں ان کے کلام کو دیکھئے
-
خود اقبال کا کلام آپ کے سامنے ہے
-
ذرا پہلے حالی ہیں پھر پورا دبستان ہے شعراء کا
-
تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس کا جو شعریات کے نقطہ نظر سے وہ کوئی اسے اعلیٰ معیار پر قرار نہیں دے سکتے ۔
-
خطبہ الہامیہ کے متعلق مرزا صاحب کا دعوٰی ہے کہ یہ الہامی تحریر ہے
-
لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس الہامی تحریر میں بھی گرائمر کی غلطیاں در آئی ہیں
-
ملاحظہ کیجئے۔
-
اَلَّذِیْنَ اَکَلُوْاَ عَمارَ ھُمْ فِی اِبتغِاءِ الُّدنیا
-
عمر کھانا پنجابی محاورہ ہے جس سے عرب بالکل نا آشنا ہیں
-
ایک اور جگہ لکھتے ہیں
-
وارتد وامن الاسلام
-
یہ پرپپویزیشن (Preposition) کی فاش غلطی ہے مِنْ کی جگہ پر عَنْ ہونا چاہئے
-
اسی قسم کی غلطیوں کی وجہ سے مشہور مصری عالم
-
علامہ رشید رضا اڈیٹر المنارقاہرہ مرزا صاحب کی عربیت پر ہنسا کرتے تھے
-
مرزا صاحب کے عربی الہامات سے پتہ چلتا ہے
-
کہ بے شمار جگہوں پر قرآن پاک کی آیات دوبارہ مرزا صاحب پر نازل ہوئیں
-
اور بیسیوں جگہ پر مقامات حریری اور بدیعی کے جملے کے جملے
-
شعراء جاہلیت کے مصرے مرزا صاحب پر اترے
-
عفت الدیار محلھا و مقامھا
-
یہ مرزا صاحب کا ایک الہام ہے
-
اور عجیب اتفاق ہے کہ السبع المعلقات کے قصیدے کا پہلا مصرعہ بھی یہی ہے
-
اظہار کہتے ہیں، سمجھیں کے حق میرے لئے حقیقت ہے میرے شعور کے لئے
-
اظہار اس حق کی مینی فیٹیشن (Manifestation) کو کہتے ہیں
-
نبی کا ادراک حق کی پریزنس (Presence) ہے اس کے شعور میں
-
نبی کا اظہار حق کی مینی فیٹیشن (Manifestation) ہے اسکی زبان سے
-
تو ان دونوں میں حق کی مناسبت رکھنے والا جو شکوہ اور حسن لازماََدرکار ہے
-
ایک منکر حق کے تصور میں بھی لازماََ درکار ہے
-
وہ شکوہ یہاں پر اس کی پرچھائی بھی نظر نہیں آتی
-
مرزا صاحب کے الہامات میں سے بہت سے الہامات عجیب و غریب ہیں
-
اے ازلی ابدی خدا بیڑیوں کو پکڑ کے آ
-
٥ مارچ ١٩٠٥ء کو خواب میں ایک فرشتہ دیکھا
-
جس نے اپنا نام ٹیچی ٹیچی بتایا
-
اتنے میں تین فرشتے آسمان سے آئے ایک کا نام خیراتی تھا
-
٢٤ فروری ١٩٠٥ء کو حالت کشفی میں جبکہ حضور کی طبیعت ناساز تھی
-
ایک شیشی دکھائی گئی جس پر لکھا تھا
خاک سار پیپر منٹ
-
حقیقت تو یہ ہے کہ مرزا صاحب نے اپنے ان الہامات کے ذریعے سے
-
وحی، رسالت اور مذہب کو بچوں کا کھیل بنا لیا
-
یہ تو وہ الہامات تھے جو عجیب و غریب تھے
-
لیکن مرزا صاحب کے ہاں ایسے الہامات بھی موجود ہیں
-
جو سرے سے ہی لغو، بےمعنی اور مہمل ہیں
-
ملاحظہ کیجئے
-
اور ان کی روح کو خدا تعالیٰ کی روح کے ساتھ وفاداری کا ایک راز ہوتا ہے
-
فی شائل مقیاس
-
ایلی ایلی لماسبقتنی ۔ایلی اوس
-
ھو شعنا نعساََ
-
پریشن ۔ عمر ۔ پیرا طوس یعنی پڑا طوس یعنی پلا طوس
-
اب دیکھیں نہ جی ایک کامن سینس (Common Sense) والا آدمی بھی ہے
-
وہ جب کوئی بات کرتا ہے تو وہ اس سے جو ہے اسکی زبان سے جو بات نکلتی ہے
-
اسکی کوئی بنیاد ہوتی ہے اور اسکا کوئی معنی ہوتا ہے
-
اگر وہ بے معنی سی باتیں کرے
-
مثلاََایک جو اس کے الفاظ جو ہیں بے موقع ہیں
-
یا جو عبارت بولتا ہے یا جو وہ لکھتا ہے
-
وہ بھی سیدھے جملے نہیں ہیں ان میں بھی ٹیڑھاپن ہے
-
اب جو یہ اس قسم کی چیزیں جو ہیں جو آدمی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے
-
اس کویہ چیزیں زیب نہیں دیتیں
-
مرزاصاحب جن زبانوں میں ان کو الہام ہوتا تھا
-
حالانکہ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ ہر نبی کو اپنی قوم کی زبا ن میں اس کے پاس پیغامات آتے تھے
-
تو کوئی نبی ایسا نہیں ہوا کہ نبی تو آئے ہندوستان میں
-
اور بجائے وہ ہندوستان کی کسی بولی کے چین کی کسی زبان پر اس پروحی آتی ہو
-
یہ تو کہیں نہیں ہوا
-
جوجس قو م سے نبی ہو تا تھا وہ
-
"ولکل امت رسول"
-
قرآن میں بھی کہا گیا ہے ہر قوم میں اسکا رسول ہے
-
اور پھر یہ بھی کہا ہے
-
وَمَا اَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ اِلّا بِلسَانِ قَومِہ
-
ہم نے جو رسول بھی بھیجے وہ ان کی اپنی زبان میں بات کرتے تھے
-
تا کہ اللہ کی بات صحیح طور پر پہنچ سکے
-
رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ میں سب سے زیادہ فصیح ہوں
-
یعنی میرے جیسا حق کا حسن اظہار کرنے والا کوئی نہیں
-
فصاحت کہتے ہیں حسن اظہار کو
-
کمالِ اظہار کو
-
توان کی تحریریں ناہموار ہیں
-
نثر میں ہوں تو ناہموار ہیں
-
ان میں زبان و بیان کی غلطیاں ہیں
-
جن فقروں یا جن پیسیجز (Passages) کو یہ وحی کہتے ہیں کہ یہ وحی لفظی ہے
-
وہ مطلب کسی گاؤں کے پڑھانے والے معلم کی عربی دانی سے زیادہ اس میں مظاہرہ نہیں ہوا
-
یعنی کہ انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کو عربی میں غلطی کرنے والا
-
اور غیر فصیح کلمات کامتکلم بنا دیا
-
یعنی جس سے اچھے کلمات کوئی بھی عربی میں average استعداد رکھنے والا لکھ سکتا ہے
-
تو نبی جو اپنے اظہارمیں ایک معجزہ بن کر آتا ہے
-
وہ معجزہ یہی ہوتا ہے کہ میں جو جانتا ہوں تم جان کے دکھاؤ
-
میں جو کہتا ہوں تم کہہ کے دکھادو
-
یہ تو نبوت کے لازمی خواص ہیں
-
تو مرزا صاحب کوئی ایسی چیزنہیں جانتے
-
جن سے بہت زیادہ جاننے والے لوگ ہزاروں کی تعداد میں موجود نہ ہوں
-
بہت زیادہ جاننے والے
-
مرزا صاحب کوئی ایسی چیز نہیں جانتے جو غلطی یا نقص سے پاک ہو
-
مرزا صاحب جو کچھ بھی لکھتے ہیں اُن میں سے کوئی ایک پیرا بھی ایسا نہیں ہے
-
کہ جس کو کوئی ادیب رشک کی نظر سے دیکھے
-
اُن کا کوئی ایک شعر ایسا نہیں ہے جسے شاعری کے کسی بھی انتخاب میں شامل کیا جا سکے