اداروں میں افسر ماتحت کے فرق کو اب بھول جائیں
-
0:01 - 0:04ایک حیاتیاتی ارتقا کے استاد جو کہ
کہ پرڈو یونیورسٹی سے تھے، -
0:04 - 0:07ولیم مویر نامی، کی تحقیق کو مرغیوں پر تھی۔
-
0:08 - 0:09وہ بارآوری میں دلچسپی رکھتا تھا --
-
0:09 - 0:12اور میرا خیال ھے یہ ھم سب کا مسئلہ ھے --
-
0:12 - 0:15لیکن مرغیوں میں اسکا ادراک آسان ھے
کیونکہ آپ صرف انڈے گنتے ھیں۔ -
0:15 - 0:17(قہقہے)
-
0:17 - 0:20وہ جاننا چاہتا تھا کہ مرغیوں کو
کونسی چیزیں زیادہ بارآور بناتی ہیں۔ -
0:20 - 0:23تو اس نے ایک خوبصورت تجربہ وضع کیا۔
-
0:23 - 0:27مرغیاں غول کی شکل میں رہتی ھیں، تو اس نے
سب سے پہلے ایک عام سے غول کا انتخاب کیا، -
0:27 - 0:31اور اس نے اسکو چھ نسلوں تک الگ تھلگ رکھا۔
-
0:31 - 0:33لیکن پھر اس نے ایک اور غول تشکیل دیا کیا
-
0:33 - 0:36اور اس غول میں سے ہر ایک بارآوری
کیلیے بہترین مرغی تھی -- -
0:36 - 0:38آپ ان کو ارفع مرغیاں کہہ سکتے ھیں --
-
0:38 - 0:41اور اس نے ان سب کو ایک
بڑے جھنڈ میں اکھٹا کر دیا، -
0:41 - 0:45اور ہر نسل میں سے اس نے صرف وہ مرغیاں
منتخب کیں جو سب سے زیادہ بارآور تھیں۔ -
0:45 - 0:48جب چھ نسلیں گذر گئیں،
-
0:48 - 0:50اس نے کیا دیکھا؟
-
0:50 - 0:54پہلا غول، جو کہ عام مرغیوں کا غول تھا،
اسکی کارکردگی ٹھیک تھی۔ -
0:54 - 0:56وہ ساری مرغیاں موٹی اور پروں سے بھری تھیں
-
0:56 - 0:59اور انکے انڈوں کی پیداوار
حیرت انگیز طور پر بڑھی تھی۔ -
0:59 - 1:01اور دوسرے غول کی کارکردگی کیسی رہی؟
-
1:01 - 1:03ماسوائے تین کے سب مر گئے۔
-
1:04 - 1:06انہوں نے باقیوں کو حکم چلا چلا کر مار دیا۔
-
1:06 - 1:08(قہقہے)
-
1:08 - 1:14وہ مرغیاں جو انفرادی طور پر بہترین تھیں،
انہوں نے اپنی یہ ذاتی کامیابی، -
1:14 - 1:18باقی مرغیوں کی بار آوری کو کچل کر
حاصل کی تھی۔ -
1:19 - 1:23اب، جب میں پوری دنیا میں جا کر
یہ کہانی سناتی ھوں، -
1:23 - 1:25تمام اقسام کی تنظیموں اور اداروں میں،
-
1:25 - 1:27لوگوں کو تقربیا فورا اسکی مناسبت
نظر آنا شروع ھو جاتی ھے، -
1:27 - 1:30اور جب وہ میرے پاس آتے ھیں تو
کچھ ایسی باتیں کہتے ہیں، -
1:30 - 1:33"وہ جو ارفع غول والی بات تھی،
میرا ادارہ بالکل ویسا ہی ھے۔" -
1:33 - 1:35(قہقہے)
-
1:35 - 1:38یا، "میرے ملک کی یہی کہانی ھے،"
-
1:38 - 1:40یا، "میری زندگی ایسی ھے۔"
-
1:41 - 1:45ساری زندگی مجھے یہ بتایا گیا کہ
آگے بڑھنے کے لیے مقابلہ ضروری ھے؛ -
1:45 - 1:49صحیح سکول کا انتخاب کرو، صحیح نوکری
کا انتخاب کرو، اور سب سے آگے نکل جاوؑ، -
1:49 - 1:52اور حقیقت میں یہ بات کبھی بھی
میرے دل کو نہیں بھائی، -
1:52 - 1:57میں نے کاروباو اس لیے شروع کیے اور
چلائے کیونکہ ایجاد کرنا ایک لطف ھے، -
1:57 - 2:01اور اس لیے بھی کہ لائق اور
تخلیقی لوگوں کے ساتھ کام کرنا، -
2:01 - 2:02اپنے آپ میں ایک انعام ھے۔
-
2:03 - 2:08اور ارفع مرغیاں یا افسرانہ ماحول میرے کام
کرنے کے لیے کبھی بھی حوصلہ افزا نہیں رہا -
2:08 - 2:11اور نہ ہی بڑی شخصیات کے ساتھ کام کرنا۔
-
2:11 - 2:13لیکن گذشتہ پچاس سالوں میں،
-
2:13 - 2:17ھم نے بہت سارے اداروں اور کچھ معاشروں کو
-
2:17 - 2:20ارفع مرغیوں کی طرز پر چلانے کی کوشش کی۔
-
2:20 - 2:24اور ھمارا خیال رہا ہے کہ بڑی شخصیات کو
ساتھ ملانے سے کامیابی یقینی ھو جاتی ھے، -
2:24 - 2:28سب سے قابل مردوں کو،
یا کبھی کبھی کوئی عورت بھی ہو سکتی ہے، -
2:28 - 2:31اور انکو بہت سارے وسائل اور
تمام اختیارات دینے سے، -
2:31 - 2:35لیکن ان سب جگہوں پر نتیجہ بالکل
ولیم مویر کے تجربے جیسا ہی ھوا، -
2:35 - 2:40جارحانہ رویے، نظام کی خرابی، اور ضیاع۔
-
2:40 - 2:45اگر کامیابی کا ذریعہ یہی ھے کہ
کامیاب لوگ وہ ہوں گے، -
2:45 - 2:48جو باقی سب کی صلاحیتوں کو کچل دیں گے،
-
2:48 - 2:51تو پھر ھمیں جلد ازجلد ایک بہتر طور پر
کام کرنے والے نظام کی ضرورت ھے -
2:51 - 2:54جو خوشحال زندگی گزارنے میں مدد دے۔
-
2:55 - 2:59(تالیاں)
-
2:59 - 3:03وہ کیا ہے جو کچھ گروہوں کو
-
3:03 - 3:06باقیوں کی نسبت زیادہ کامیاب اور
بہتر نتائج دینے والا بناتا ہے؟ -
3:07 - 3:10تو یہ وہ سوال تھا جس پر
ایم آئی ٹی والوں نے تحقیق کی۔ -
3:10 - 3:12انہوں نے سینکڑوں رضا کار اکٹھے کیے،
-
3:12 - 3:16ان کے گروہ بنائے گئے اور انکو حل کرنے
کے لیے بہت مشکل سوالات دیے گئے۔ -
3:16 - 3:19اور جو ہوا، وہ توقعات کے عین مطابق تھا،
-
3:19 - 3:22کہ کچھ گروہ دوسروں کی نسبت،
بہت ہی زیادہ کامیاب ہوئے، -
3:22 - 3:25لیکن اس میں مزے کی بات یہ تھی کہ
وہ گروہ جو زیادہ کامیاب تھے، -
3:25 - 3:28وہ ایسے گروہ نہ تھے جن کے ایک یا دو افراد،
-
3:28 - 3:31بہت ہی اعلٰی ذہنی سطح کے مالک تھے۔
-
3:31 - 3:35اور نہ ہی وہ گروہ زیادہ کامیاب تھے
جنکی مجموعی طور پر، -
3:35 - 3:37ذہنی سطح زیادہ تھی۔
-
3:37 - 3:43بلکہ گروہ جو زیادہ کامیاب تھے،
انکی تین خصوصیات تھیں۔ -
3:43 - 3:49اول یہ کہ، ان میں ایک دوسرے کا خیال
رکھنے کی خصوصیت سب سے زیادہ تھی، -
3:49 - 3:52اس کو جانچا جاتا ہے آنکھوں سے
دماغ کو پڑھنے والی صلاحیت سے۔ -
3:52 - 3:55اسکو مجموعی طور پر احساس کا
امتحان بھی کہتے ھیں، -
3:55 - 3:57اور وہ گروہ جو اس میں بہتر تھے،
-
3:57 - 3:59انکی کارکردگی بھی بہتر تھی۔
-
3:59 - 4:04دوسرا، کامیاب گروہوں کے ارکان نے
ایک دوسرے کو تقریباً برابر کا وقت دیا، -
4:04 - 4:06تاکہ کوئی ایک فرد اس گروہ پر حاوی نہ ھو،
-
4:06 - 4:09لیکن اس گروہ میں کوئی کاہل بھی نہ ہو۔
-
4:09 - 4:12اور تیسرا، زیادہ کامیاب
ھونے والے گروہوں میں -
4:12 - 4:14زیادہ خواتین تھیں۔
-
4:14 - 4:16(تالیاں)
-
4:16 - 4:20کیا اسکی وجہ یہ تھی کہ خواتین عام طور پر
بہت بہتر کارکردگی دکھاتی ہیں -
4:20 - 4:22آنکھوں سے دماغ کو پڑھنے میں،
-
4:22 - 4:25تو کیا ہم احساس کے جذبے کو
حد سے زیادہ اھمیت دے رھے ہیں؟ -
4:25 - 4:28یا یہ کہ وہ سوچنے کے مختلف
زاویے متعارف کرواتی ھیں؟ -
4:28 - 4:32اس پر حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا،
لیکن اس تجربہ کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ -
4:32 - 4:36اس نے ھمیں دکھایا جو ہم جانتے ہیں کہ کیسے
کچھ گروہ باقیوں سے بہتر نتائج دیتے ھیں، -
4:36 - 4:39لیکن اس کی کنجی یہ تھی کہ
-
4:39 - 4:42وہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔
-
4:44 - 4:46تو اس بات کو ھم روزمرہ زندگی
سے کیسے جوڑ سکتے ھیں؟ -
4:46 - 4:52تو اسکا مطلب یہ ھے کہ لوگوں کا ایک
دوسرے سے تعلق بہت اھم ہے، -
4:52 - 4:56کیونکہ وہ گروہ جہاں ایک دوسرے کو
سمجھنے کی صلاحیت اور احساس زیادہ ھوتا ھے، -
4:56 - 4:59وہاں خیالات جنم لیتے اور بڑھتے ہیں۔
-
4:59 - 5:03لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں میں پھنستے نہیں۔
وہ فضول باتوں پر وقت ضائع نہیں کرتے۔ -
5:03 - 5:07مثال کے طور پر، اروپ دنیا کے کامیاب ترین
انجینرنگ کے اداروں میں سے ایک ھے، -
5:07 - 5:10اور اس کو ایک اصطبل بنانے کا ٹھیکہ ملا،
-
5:10 - 5:12بیجنگ اولمپکس کے لیے۔
-
5:12 - 5:14اب، اس عمارت میں،
-
5:14 - 5:19ڈھائی ہزار تن ومند قسم
کے گھوڑوں نے آنا تھا، -
5:19 - 5:21جو لمبی ھوائی مسافت کے بعد پہنچ رھے تھے،
-
5:21 - 5:25ھوائی سفر کے اثرات کی وجہ سے،
وہ بہتر محسوس نہیں کررھے ھونگے۔ -
5:25 - 5:28اور انجنیرز کےلیے مسئلہ یہ تھا کہ،
-
5:28 - 5:32وہ گھوڑوں کی کتنی لید کے لیے بندونست کریں؟
-
5:33 - 5:37اب یہ انجنیرنگ سکول میں آپکو
کوئی نہیں پڑھاتا -- (قہقہے) -- -
5:37 - 5:40اور یہ ایسی چیز بھی نہیں تھی کہ آپ
اس میں کوئی غلطی کر سکیں، -
5:40 - 5:44تو وہ اس کام کے لیے مہینوں تک
جانوروں کے ڈاکٹروں سے تحقیق کر سکتے تھے، -
5:44 - 5:46حساب کتاب کی بڑی بڑی کتابیں کھول سکتے تھے۔
-
5:46 - 5:49اس کے بجائے، انہوں نے مدد مانگی
-
5:49 - 5:53اور انہوں نے نیویارک کے گھڑسوار کلب
کے بنانے والےکو ڈھونڈ نکالا۔ -
5:53 - 5:57مسئلے کا حل ایک دن سے بھی کم میں مل گیا۔
-
5:57 - 6:00اروپ کا خیال ھے کہ مدد کا یہ طریقہ
-
6:00 - 6:03انکی کامیابی کا بنیادی کردار ھے۔
-
6:03 - 6:07اب، مدد مانگنا کچھ عجیب سا لگتا ھے،
-
6:07 - 6:11لیکن یہ کامیاب گروہوں کے لیے
انتہائی ضروری چیز ھے، -
6:11 - 6:17اور یہ روزمرہ زندگی میں انفرادی ذہانت
کو بہت پیچھے چھوڑ دیتا ھے۔ -
6:17 - 6:20مدد مانگنے کا مطلب ھے مجھے ہر چیز کا
علم ھونا ضروری نہیں ھے، -
6:20 - 6:26مجھے صرف ان لوگوں کے ساتھ کام کرنا ھے جو
مدد دینے اور مدد لینے کا ھنر جانتے ھیں۔ -
6:26 - 6:31سیپ (ادارہ) میں، انکا خیال ھے کہ ہر سوال
کا جواب سترہ منٹ میں دیا جا سکتا ھے، -
6:32 - 6:35لیکن میں نے کسی ایک بھی ایسی
ہائی ٹیک کمپنی کے ساتھ کام نہیں کیا، -
6:35 - 6:41جن کا خیال یہ ھو کہ یہ کوئی
ٹیکنالوجی کا مسئلہ ھے، -
6:41 - 6:45کیونکہ مدد مانگنے پر لوگوں کو
ایک دوسرے کو سمجھنا پڑے گا۔ -
6:46 - 6:51یہ تو ایک کھلی سی بات ھے، اور ہمیں لگے
کہ یہ تو خود بخود ہوتا ہے، -
6:51 - 6:52لیکن ایسا نہیں ھوتا۔
-
6:52 - 6:56جب میں اپنی پہلی سوفٹ ویر
کی کمپنی چلا رہی تھی، -
6:56 - 6:58مجھے لگا کہ ھم پھنس کر رہ گئے ھیں۔
-
6:58 - 7:02ایک دوسرے سے بس مزاحمت ہی نظر آتی تھی،
-
7:02 - 7:06تو مجھے احساس ھوا کہ وہ قابل اور
تخلیقی لوگ جو میں نے رکھے تھے، -
7:06 - 7:08ایک دوسرے سے ناواقف تھے۔
-
7:08 - 7:12ان کی توجہ صرف اپنے اپنے کاموں پر تھی،
-
7:12 - 7:16انہیں تو اس بات کا بھی علم نہ تھا
کہ وہ کس کے ساتھ بیٹھے ھیں، -
7:16 - 7:19اور پھر میں نے اس بات پر اصرار کیا
کہ ھمیں کام روک کر -
7:19 - 7:21ایک دوسرے کو جاننے میں وقت صرف کرنا چاہیے،
-
7:21 - 7:24تا کہ ھم صحیح معنوں میں رفتار پکڑ سکیں۔
-
7:24 - 7:27یہ تو بیس سال پہلے کی بات تھی،
تو اب جب میں اداروں میں جاتی ھوں، -
7:27 - 7:30جنہوں نے میز پر کافی پینے پر
پابندی لگائی ہے -
7:30 - 7:34تاکہ لوگ کافی کی مشین کے آس پاس ملیں
-
7:34 - 7:36اور گپ شپ لگائیں۔
-
7:36 - 7:39سویڈن والوں نے تو اس کو ایک نام
بھی دے دیا ھے۔ -
7:39 - 7:42وہ اس کو فیقا کہتے ھیں، جسکا مطلب ھے
کافی کے لیے وقفہ سے بڑھ کر۔ -
7:42 - 7:46اسکا مطلب ھے اجتماعی بحالی۔
-
7:46 - 7:49مین (ریاست) میں ایک کمپنی ھے ایڈیکس،
-
7:49 - 7:52انہوں نے تو اپنے ادارے میں ایک سبزیوں
کا باغ لگا دیا ھے تاکہ لوگ -
7:52 - 7:54جو کاروبار کے مختلف شعبوں سے متعلق ہیں
-
7:54 - 7:59اکٹھے کام کر سکیں، اور اس طرح پورے
کاروبار کے بارے میں جان سکیں۔ -
7:59 - 8:01تو کیا یہ سب پاگل ھو گئے ھیں؟
-
8:01 - 8:05معاملہ اسکے برعکس ھے -- وہ اس نتیجہ پر
پہنچے ھیں کہ جب معاملات مشکل ھو جاتے ھیں، -
8:05 - 8:07اور معاملات ہمیشہ مشکل ہو جاتے ہیں،
-
8:07 - 8:09اگرآپ بہت ہی اہمیت کا کام کر رہے ہیں،
-
8:09 - 8:12تو لوگوں کو معاشرتی مدد کی ضرورت پڑتی ھے،
-
8:12 - 8:15اور ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ
مدد کس سے مانگیں۔ -
8:15 - 8:20نئی سوچ لوگوں کے پاس ھوتی ہے:
اداروں کے پاس نہیں۔ -
8:20 - 8:23اور کون سی چیز لوگوں کو ابھارتی ھے
-
8:23 - 8:27وہ لوگوں کا آپس میں تعلق، وفاداری
اور اعتماد ھوتا ھے۔ -
8:28 - 8:31دراصل مسالہ اھم ھوتا ھے،
-
8:31 - 8:34صرف اینٹیں اھم نہیں ھوتیں۔
-
8:34 - 8:36اب، جب ان تمام چیزوں کو ملائیں،
-
8:36 - 8:39تو جو چیز آپکو ملے گی اس کو
سماجی سرمایہ کہتے ھیں۔ -
8:39 - 8:45سماجی سرمایہ دراصل وہ بھروسا اور باہمی
انحصار ھے جو اعتماد کو جنم دیتا ھے۔ -
8:45 - 8:48یہ اصطلاح ان ماہرین سماجیات نے ایجاد کی
جو معاشرے کا مطالعہ کرتے ھیں -
8:48 - 8:53یہ کشیدگی کے وقت میں بہت
لچکدار ثابت ھوئی ھے۔ -
8:53 - 8:58سماجی سرمایہ وہ چیز ھے جو اداروں
کو متحرک بناتا ہے، -
8:58 - 9:03اور سماجی سرمایہ اداروں کو
مظبوط بناتا ھے۔ -
9:04 - 9:06عملی طور پر اسکا مطلب کیا ھے؟
-
9:07 - 9:11اسکا مطلب ھے بروقت فیصلے سب سے اھم ہیں،
-
9:11 - 9:15کیونکہ سماجی سرمایہ وقت کے
ساتھ ساتھ بڑھتا رہتا ھے۔ -
9:15 - 9:21چنانچہ گروہ جو لمبے عرصے تک اکٹھے کام کرتے
ہیں بہتر ھو جاتے ھیں، کیونکہ وقت لگتا ھے -
9:21 - 9:26اعتماد بنانے کے لیے جو حقیقی معنوں میں سوچ
اور باہمی معاملات میں کشادگی پیدا کرے۔ -
9:26 - 9:30اور وقت ہی اقدارکی تعمیر کرتا ھے۔
-
9:31 - 9:33جب ایلکس پنٹ لینڈ نے ایک
ادارے کو مشورہ دیا کہ -
9:33 - 9:36وہ کافی کے وقفے کو ایک ہی وقت میں کریں
-
9:36 - 9:39تا کہ لوگوں کو ایک دوسرے سے
بات کرنے کا موقع مل سکے، -
9:39 - 9:43ان کا منافع پندرہ کروڑ ڈالر بڑھ گیا،
-
9:43 - 9:47اور انکے ملازمین کے اطمینان میں
دس فیصد اضافہ ھو گیا۔ -
9:47 - 9:50تو پھر سماجی سرمایہ نے خوب منافع دیا،
-
9:50 - 9:54اور اس کو جتنا خرچ کریں
یہ اتنا ہی بڑھتا ھے۔ -
9:54 - 10:00لیکن یہ صرف میل جول کے لیے نہیں ہے اور
نہ ہی کام چوروں کے لیے، -
10:00 - 10:05کیونکہ اس طرح کے لوگ
بال کی کھال اتارنے والے، -
10:05 - 10:09بے صبرے اور ہر حال میں صرف
اپنا سوچنے والے ھوتے ھیں، -
10:09 - 10:13کیونکہ انکا کام یہی ھوتا ھے۔
-
10:13 - 10:18اس طریقے میں اختلاف اکثر ھوتا ھے
کیونکہ رشتے میں ایک کھلا پن ھوتا ھے۔ -
10:18 - 10:23اور اسی طریقہ سے اچھے خیالات
عظیم خیالات بن جاتے ھیں، -
10:23 - 10:27کیونکہ کوئی بھی خیال مکمل پیدا نہیں ھوتا۔
-
10:27 - 10:30یہ ایک نئے پیدا ھونے والے بچے کی طرح
چھوٹا سا جنم لیتا ھے، -
10:30 - 10:34ایک طرح سے الجھا اور اٹکا ہوا
لیکن امکانات سے بھرپور۔ -
10:34 - 10:41اور یہ صرف بہت سارے لوگوں کی اچھی
شراکت داری، یقین اور کوشش سے، -
10:41 - 10:44کامیابی پاتا ہے۔
-
10:44 - 10:48اور سماجی سرمایہ بنیادی طور پر
یہی کام کرتا ھے۔ -
10:49 - 10:52لیکن ھم عام طور پر اس پہلو پر
بات کرنے کے عادی نہیں، -
10:52 - 10:56کسی کی صلاحیتوں اور تخلیقی پن کے بارے میں۔
-
10:56 - 11:00ھم بڑی شخصیات کی بات کرنے کے عادی ھیں۔
-
11:00 - 11:04تو میں نے اس بارے میں سوچنا شروع کیا کہ
اگر ھم اس طرح سے کام کرنا شروع کر دیں، -
11:04 - 11:07اس کا مطلب ھوا کہ اب کوئی بڑی شخصیت نہیں؟
-
11:07 - 11:10تو میں گئی اور میں آڈیشن میں جا کر بیٹھی،
-
11:10 - 11:14جو لندن کے رائل فنِ ڈرامہ
مرکز والے کرتے تھے۔ -
11:14 - 11:17اور جو میں نے وہاں دیکھا اس سے
میں بہت حیران ھوئی، -
11:17 - 11:22کیونکہ وہاں پر استاد کسی انفرادی طور پر
بہت بڑے فنکار کی تلاش نہیں کر رھے تھے۔ -
11:22 - 11:26وہ اس بات کا جائزہ لے رھے تھے کہ
طلبا کے بیچ میں معاملات کیسے چل رھے تھے، -
11:26 - 11:31کیونکہ دراصل صحیح ڈرامہ تو وہیں ہوتا یے۔
-
11:31 - 11:33اور جب میں نے کامیاب البمز کے
پروڈیوسرز سے بات کی، -
11:33 - 11:36تو انہوں نے کہا کہ "ہاں یقیناً ھماری
موسیقی میں بہت بڑے بڑے نام ھیں۔ -
11:36 - 11:39لیکن دراصل یہ لوگ زیادہ دیر چلتے نہیں۔
-
11:39 - 11:43لمبے عرصے تک کامیاب وہ رہتے ھیں
جو دوسروں سے تعاون کرتے ھیں۔ -
11:43 - 11:47کیونکہ انکی اچھائی دوسروں میں اچھائی
تلاش کرنے کے نتیجے میں، -
11:47 - 11:49انکے اپنے اندر ظاہر ھوتی ھے۔"
-
11:49 - 11:52اور جب میں ان نامی گرامی اداروں میں گئی جو
جانے جاتے ھیں -
11:52 - 11:54اپنی تخلیق اور جدت پسندی کی وجہ سے،
-
11:54 - 11:57تو مجھے کوئی بڑی شخصیت نظر بھی نہیں آئی،
-
11:57 - 12:01کیونکہ وہاں ہر فرد کی اہمیت تھی۔
-
12:01 - 12:04اور جب میں نے اپنی عملی زندگی پر نظر ڈالی،
-
12:04 - 12:08اور ان اھم لوگوں کا جن کے ساتھ
کام کرنے کا مجھے اعزاز حاصل ھوا، -
12:08 - 12:14تو مجھے احساس ھوا کہ ھم ایک دوسرے
کے لیے اور بھی کتنا کچھ کر سکتے ھیں -
12:14 - 12:19اگر ھم دوسروں پر رعب جمانا بند کر دیں۔
-
12:19 - 12:25(قہقہے) (تالیاں)
-
12:25 - 12:31جب آپ کو معاشرتی بھلائی کی
صحیح سمجھ آ جائے، -
12:31 - 12:34تو پھر بہت ساری چیزیں کو تبدیل ھونا چاہیے۔
-
12:34 - 12:39مقابلے کے ذریعے سے انتظام عام طور پر
-
12:39 - 12:41ملازمین کو ایک دوسرے کے
مقابلے پر لے آتا ہے۔ -
12:41 - 12:46اب اس دشمنی کو سماجی سرمایہ کے
ساتھ تبدیل کرنا ھو گا۔ -
12:46 - 12:49ھم دہائیوں سے لوگوں کو پیسے کے ذریعے
ترغیب دینے کی کوشش کرتے رھے ھیں، -
12:49 - 12:53حالانکہ ھمارے پاس بڑے پیمانے پر اس طرح
کی تحقیق موجود ہے جو دکھاتی ہے -
12:53 - 12:56کہ پیسہ سماجی بگاڑ کا سبب بن رہا ھے۔
-
12:57 - 13:02اب ھمیں لوگوں کو ایک دوسرے کو
ترغیب دینے پر آمادہ کرنا ھے۔ -
13:03 - 13:08اور سالوں تک ھم سوچتے رھے کہ رہنما
تن تنہا جانباز ھوتے ھیں جن سے توقع ہوتی ہے -
13:08 - 13:11کہ وہ اکیلے ہی مشکل سےمشکل
مسائل کا حل تلاش کر لیں گے۔ -
13:11 - 13:14اب ھمیں رہمنائی کی نئی تشریح کرنی ہو گی
-
13:14 - 13:18ایک ایسے منصوبے کے طور پر
جس میں ایسے حالات پیدا کیے جائیں -
13:18 - 13:24جن میں ہر شخص اپنی سوچ بغیر کسی خوف اور
ڈر کے سب کے ساتھ مل کر بروئے کار لا سکے۔ -
13:24 - 13:28اور ھم یہ جانتے ھیں کہ یہ کام مفید ھے۔
-
13:28 - 13:33جب مونٹریال ضوابط کے تحت سی ایف سی
کو بتدریج ختم کرنے کی بات چلی، -
13:33 - 13:37کیونکہ کلوروفلوروکاربن اوزون کی تہہ میں
سوراخ کرنے کی ایک وجہ بن رہی تھی، -
13:37 - 13:39خطرات بہت زیادہ تھے،
-
13:39 - 13:42کیونکہ سی ایف سی کا استعمال ہر جگہ تھا،
-
13:42 - 13:45اور کسی کو علم نہ تھا کہ اس کا متبادل
ملے گا بھی یا نہیں۔ -
13:45 - 13:51لیکن ایک ٹیم جس نے اس کے حل کا بیڑہ اٹھایا
اس نے تین اہم اصول اپنائے۔ -
13:51 - 13:55انکے سربراہ فرینک ماسلن نے بتایا
پہلا اصول یہ تھا کہ، -
13:55 - 13:58اس ٹیم میں کوئی بڑا چھوٹا نہیں ھوگا۔
-
13:58 - 14:00ھمیں اس کام کے لیے ہر بندے کی ضرورت ہے۔
-
14:00 - 14:03ہر ایک کا نقطہ نظر اہم ہے۔
-
14:03 - 14:08دوسرا، ھمارا کام کرنے کا معیار صرف ایک ھے:
-
14:08 - 14:10بہترین حل جو ممکن ھو۔
-
14:11 - 14:14اور تیسرا، اس نے اپنے سربراہ جیوف ٹڈ ھوپ
کو بتایا، -
14:14 - 14:16کہ اسے اپنے آپ کو باہر رکھنا ھو گا،
-
14:16 - 14:19کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ شخصی اختیارات
کیسے کام خراب کر سکتے ھیں۔ -
14:19 - 14:22اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ
ٹڈ ھوپ نے کچھ کیا ہی نہیں۔ -
14:22 - 14:23اس نے اپنی ٹیم کو تحفظ کا احساس دیا،
-
14:23 - 14:28اور اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ اپنے
بنائے گئے اصولوں پر عمل کرتے رہیں۔ -
14:28 - 14:34اور اس نے کام کر دکھایا، دوسرے تمام اداروں
سے پہلے جو اس مسئلے پر کام کر رہے تھے، -
14:34 - 14:38اس گروہ نے اس کا حل ڈھونڈ نکالا۔
-
14:38 - 14:40اور آج کے دن تک، وہ مونٹریال ضوابط
-
14:40 - 14:46بین الاقوامی دنیا کا سب سے کامیاب
ماحولیاتی معاہدہ ھے -
14:46 - 14:48کیے گئے تمام معاہدوں میں۔
-
14:49 - 14:52اس وقت بہت کچھ داو پر لگا ہوا تھا،
-
14:52 - 14:55اور اسی طرح آج بھی بہت کچھ داو پر لگا ہے،
-
14:55 - 14:59اور ھم ان مسئلوں کا حل کبھی نہ نکال
پائیں گے اگر ھماری توقع یہی رہی کہ -
14:59 - 15:02یہ کام تو صرف بڑی بڑی شخصیات
ہی کر سکتی ہیں۔ -
15:02 - 15:05اب ہمیں سب کی ضرورت ہے،
-
15:05 - 15:12کیونکہ جب ھم یہ بات تسلیم کرتے ھیں
کہ ہر بندے کی ایک اھمیت ھے -
15:12 - 15:19تبھی ھم ہر شخص کی توانائی، تخیلاتی قوت
اور رفتار سے مستفیذ ھو سکتے ھیں -
15:19 - 15:23اور پھر نا ممکن کا حصول ممکن ھو جاتا ھے۔
-
15:23 - 15:26شکریہ۔
-
15:26 - 15:30(تالیاں)
- Title:
- اداروں میں افسر ماتحت کے فرق کو اب بھول جائیں
- Speaker:
- مارگریٹ ہیفرنین
- Description:
-
اداروں میں عام طور پر کام کرنے کی روایت سپر چکن ماڈل پر ھے، ان چند ملازمین کی بہت اھمیت ھوتی ھے جو دوسروں سے بہت بہتر کام کرتے ھیں۔ لیکن وہ ٹیم جو بہت اعلٰی کام کے لیے جانی جاتیں ھیں، وہ اس طرز پر کام نہیں کرتیں۔ بزنس رہنما مارگریٹ ہیفرنین کی سوچ یہ ھے کہ معاشرتی بندھن — جہاں کافی کے وقفے میں ہر فرد دوسرے سے مدد طلب کرتا ھے — ایسے ادراے بہت اعلی نتائج دیتے ھیں۔ یہ ایک انتہائی مختلف سوچ ھے، جو ھمیں بتاتی ھے کہ ھم بہترین کام کیوں کرتے ھیں، اور رہنما ھونے کا مطلب کیا ھے۔ کیونکہ جیسے ہیفر نین کہتی ھے، خیالات اداروں کے پاس نہیں لوگوں کے پاس ھوتے ھیں۔
- Video Language:
- English
- Team:
- closed TED
- Project:
- TEDTalks
- Duration:
- 15:47
Umar Anjum approved Urdu subtitles for Why it's time to forget the pecking order at work | ||
Umar Anjum edited Urdu subtitles for Why it's time to forget the pecking order at work | ||
Umar Anjum edited Urdu subtitles for Why it's time to forget the pecking order at work | ||
Umar Anjum edited Urdu subtitles for Why it's time to forget the pecking order at work | ||
Umar Anjum edited Urdu subtitles for Why it's time to forget the pecking order at work | ||
Umar Anjum edited Urdu subtitles for Why it's time to forget the pecking order at work | ||
Umar Anjum edited Urdu subtitles for Why it's time to forget the pecking order at work | ||
Umar Anjum accepted Urdu subtitles for Why it's time to forget the pecking order at work |