Return to Video

اداروں میں افسر ماتحت کے فرق کو اب بھول جائیں

  • 0:01 - 0:04
    ایک حیاتیاتی ارتقا کے استاد جو کہ
    کہ پرڈو یونیورسٹی سے تھے،
  • 0:04 - 0:07
    ولیم مویر نامی، کی تحقیق کو مرغیوں پر تھی۔
  • 0:08 - 0:09
    وہ بارآوری میں دلچسپی رکھتا تھا --
  • 0:09 - 0:12
    اور میرا خیال ھے یہ ھم سب کا مسئلہ ھے --
  • 0:12 - 0:15
    لیکن مرغیوں میں اسکا ادراک آسان ھے
    کیونکہ آپ صرف انڈے گنتے ھیں۔
  • 0:15 - 0:17
    (قہقہے)
  • 0:17 - 0:20
    وہ جاننا چاہتا تھا کہ مرغیوں کو
    کونسی چیزیں زیادہ بارآور بناتی ہیں۔
  • 0:20 - 0:23
    تو اس نے ایک خوبصورت تجربہ وضع کیا۔
  • 0:23 - 0:27
    مرغیاں غول کی شکل میں رہتی ھیں، تو اس نے
    سب سے پہلے ایک عام سے غول کا انتخاب کیا،
  • 0:27 - 0:31
    اور اس نے اسکو چھ نسلوں تک الگ تھلگ رکھا۔
  • 0:31 - 0:33
    لیکن پھر اس نے ایک اور غول تشکیل دیا کیا
  • 0:33 - 0:36
    اور اس غول میں سے ہر ایک بارآوری
    کیلیے بہترین مرغی تھی --
  • 0:36 - 0:38
    آپ ان کو ارفع مرغیاں کہہ سکتے ھیں --
  • 0:38 - 0:41
    اور اس نے ان سب کو ایک
    بڑے جھنڈ میں اکھٹا کر دیا،
  • 0:41 - 0:45
    اور ہر نسل میں سے اس نے صرف وہ مرغیاں
    منتخب کیں جو سب سے زیادہ بارآور تھیں۔
  • 0:45 - 0:48
    جب چھ نسلیں گذر گئیں،
  • 0:48 - 0:50
    اس نے کیا دیکھا؟
  • 0:50 - 0:54
    پہلا غول، جو کہ عام مرغیوں کا غول تھا،
    اسکی کارکردگی ٹھیک تھی۔
  • 0:54 - 0:56
    وہ ساری مرغیاں موٹی اور پروں سے بھری تھیں
  • 0:56 - 0:59
    اور انکے انڈوں کی پیداوار
    حیرت انگیز طور پر بڑھی تھی۔
  • 0:59 - 1:01
    اور دوسرے غول کی کارکردگی کیسی رہی؟
  • 1:01 - 1:03
    ماسوائے تین کے سب مر گئے۔
  • 1:04 - 1:06
    انہوں نے باقیوں کو حکم چلا چلا کر مار دیا۔
  • 1:06 - 1:08
    (قہقہے)
  • 1:08 - 1:14
    وہ مرغیاں جو انفرادی طور پر بہترین تھیں،
    انہوں نے اپنی یہ ذاتی کامیابی،
  • 1:14 - 1:18
    باقی مرغیوں کی بار آوری کو کچل کر
    حاصل کی تھی۔
  • 1:19 - 1:23
    اب، جب میں پوری دنیا میں جا کر
    یہ کہانی سناتی ھوں،
  • 1:23 - 1:25
    تمام اقسام کی تنظیموں اور اداروں میں،
  • 1:25 - 1:27
    لوگوں کو تقربیا فورا اسکی مناسبت
    نظر آنا شروع ھو جاتی ھے،
  • 1:27 - 1:30
    اور جب وہ میرے پاس آتے ھیں تو
    کچھ ایسی باتیں کہتے ہیں،
  • 1:30 - 1:33
    "وہ جو ارفع غول والی بات تھی،
    میرا ادارہ بالکل ویسا ہی ھے۔"
  • 1:33 - 1:35
    (قہقہے)
  • 1:35 - 1:38
    یا، "میرے ملک کی یہی کہانی ھے،"
  • 1:38 - 1:40
    یا، "میری زندگی ایسی ھے۔"
  • 1:41 - 1:45
    ساری زندگی مجھے یہ بتایا گیا کہ
    آگے بڑھنے کے لیے مقابلہ ضروری ھے؛
  • 1:45 - 1:49
    صحیح سکول کا انتخاب کرو، صحیح نوکری
    کا انتخاب کرو، اور سب سے آگے نکل جاوؑ،
  • 1:49 - 1:52
    اور حقیقت میں یہ بات کبھی بھی
    میرے دل کو نہیں بھائی،
  • 1:52 - 1:57
    میں نے کاروباو اس لیے شروع کیے اور
    چلائے کیونکہ ایجاد کرنا ایک لطف ھے،
  • 1:57 - 2:01
    اور اس لیے بھی کہ لائق اور
    تخلیقی لوگوں کے ساتھ کام کرنا،
  • 2:01 - 2:02
    اپنے آپ میں ایک انعام ھے۔
  • 2:03 - 2:08
    اور ارفع مرغیاں یا افسرانہ ماحول میرے کام
    کرنے کے لیے کبھی بھی حوصلہ افزا نہیں رہا
  • 2:08 - 2:11
    اور نہ ہی بڑی شخصیات کے ساتھ کام کرنا۔
  • 2:11 - 2:13
    لیکن گذشتہ پچاس سالوں میں،
  • 2:13 - 2:17
    ھم نے بہت سارے اداروں اور کچھ معاشروں کو
  • 2:17 - 2:20
    ارفع مرغیوں کی طرز پر چلانے کی کوشش کی۔
  • 2:20 - 2:24
    اور ھمارا خیال رہا ہے کہ بڑی شخصیات کو
    ساتھ ملانے سے کامیابی یقینی ھو جاتی ھے،
  • 2:24 - 2:28
    سب سے قابل مردوں کو،
    یا کبھی کبھی کوئی عورت بھی ہو سکتی ہے،
  • 2:28 - 2:31
    اور انکو بہت سارے وسائل اور
    تمام اختیارات دینے سے،
  • 2:31 - 2:35
    لیکن ان سب جگہوں پر نتیجہ بالکل
    ولیم مویر کے تجربے جیسا ہی ھوا،
  • 2:35 - 2:40
    جارحانہ رویے، نظام کی خرابی، اور ضیاع۔
  • 2:40 - 2:45
    اگر کامیابی کا ذریعہ یہی ھے کہ
    کامیاب لوگ وہ ہوں گے،
  • 2:45 - 2:48
    جو باقی سب کی صلاحیتوں کو کچل دیں گے،
  • 2:48 - 2:51
    تو پھر ھمیں جلد ازجلد ایک بہتر طور پر
    کام کرنے والے نظام کی ضرورت ھے
  • 2:51 - 2:54
    جو خوشحال زندگی گزارنے میں مدد دے۔
  • 2:55 - 2:59
    (تالیاں)
  • 2:59 - 3:03
    وہ کیا ہے جو کچھ گروہوں کو
  • 3:03 - 3:06
    باقیوں کی نسبت زیادہ کامیاب اور
    بہتر نتائج دینے والا بناتا ہے؟
  • 3:07 - 3:10
    تو یہ وہ سوال تھا جس پر
    ایم آئی ٹی والوں نے تحقیق کی۔
  • 3:10 - 3:12
    انہوں نے سینکڑوں رضا کار اکٹھے کیے،
  • 3:12 - 3:16
    ان کے گروہ بنائے گئے اور انکو حل کرنے
    کے لیے بہت مشکل سوالات دیے گئے۔
  • 3:16 - 3:19
    اور جو ہوا، وہ توقعات کے عین مطابق تھا،
  • 3:19 - 3:22
    کہ کچھ گروہ دوسروں کی نسبت،
    بہت ہی زیادہ کامیاب ہوئے،
  • 3:22 - 3:25
    لیکن اس میں مزے کی بات یہ تھی کہ
    وہ گروہ جو زیادہ کامیاب تھے،
  • 3:25 - 3:28
    وہ ایسے گروہ نہ تھے جن کے ایک یا دو افراد،
  • 3:28 - 3:31
    بہت ہی اعلٰی ذہنی سطح کے مالک تھے۔
  • 3:31 - 3:35
    اور نہ ہی وہ گروہ زیادہ کامیاب تھے
    جنکی مجموعی طور پر،
  • 3:35 - 3:37
    ذہنی سطح زیادہ تھی۔
  • 3:37 - 3:43
    بلکہ گروہ جو زیادہ کامیاب تھے،
    انکی تین خصوصیات تھیں۔
  • 3:43 - 3:49
    اول یہ کہ، ان میں ایک دوسرے کا خیال
    رکھنے کی خصوصیت سب سے زیادہ تھی،
  • 3:49 - 3:52
    اس کو جانچا جاتا ہے آنکھوں سے
    دماغ کو پڑھنے والی صلاحیت سے۔
  • 3:52 - 3:55
    اسکو مجموعی طور پر احساس کا
    امتحان بھی کہتے ھیں،
  • 3:55 - 3:57
    اور وہ گروہ جو اس میں بہتر تھے،
  • 3:57 - 3:59
    انکی کارکردگی بھی بہتر تھی۔
  • 3:59 - 4:04
    دوسرا، کامیاب گروہوں کے ارکان نے
    ایک دوسرے کو تقریباً برابر کا وقت دیا،
  • 4:04 - 4:06
    تاکہ کوئی ایک فرد اس گروہ پر حاوی نہ ھو،
  • 4:06 - 4:09
    لیکن اس گروہ میں کوئی کاہل بھی نہ ہو۔
  • 4:09 - 4:12
    اور تیسرا، زیادہ کامیاب
    ھونے والے گروہوں میں
  • 4:12 - 4:14
    زیادہ خواتین تھیں۔
  • 4:14 - 4:16
    (تالیاں)
  • 4:16 - 4:20
    کیا اسکی وجہ یہ تھی کہ خواتین عام طور پر
    بہت بہتر کارکردگی دکھاتی ہیں
  • 4:20 - 4:22
    آنکھوں سے دماغ کو پڑھنے میں،
  • 4:22 - 4:25
    تو کیا ہم احساس کے جذبے کو
    حد سے زیادہ اھمیت دے رھے ہیں؟
  • 4:25 - 4:28
    یا یہ کہ وہ سوچنے کے مختلف
    زاویے متعارف کرواتی ھیں؟
  • 4:28 - 4:32
    اس پر حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا،
    لیکن اس تجربہ کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ
  • 4:32 - 4:36
    اس نے ھمیں دکھایا جو ہم جانتے ہیں کہ کیسے
    کچھ گروہ باقیوں سے بہتر نتائج دیتے ھیں،
  • 4:36 - 4:39
    لیکن اس کی کنجی یہ تھی کہ
  • 4:39 - 4:42
    وہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔
  • 4:44 - 4:46
    تو اس بات کو ھم روزمرہ زندگی
    سے کیسے جوڑ سکتے ھیں؟
  • 4:46 - 4:52
    تو اسکا مطلب یہ ھے کہ لوگوں کا ایک
    دوسرے سے تعلق بہت اھم ہے،
  • 4:52 - 4:56
    کیونکہ وہ گروہ جہاں ایک دوسرے کو
    سمجھنے کی صلاحیت اور احساس زیادہ ھوتا ھے،
  • 4:56 - 4:59
    وہاں خیالات جنم لیتے اور بڑھتے ہیں۔
  • 4:59 - 5:03
    لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں میں پھنستے نہیں۔
    وہ فضول باتوں پر وقت ضائع نہیں کرتے۔
  • 5:03 - 5:07
    مثال کے طور پر، اروپ دنیا کے کامیاب ترین
    انجینرنگ کے اداروں میں سے ایک ھے،
  • 5:07 - 5:10
    اور اس کو ایک اصطبل بنانے کا ٹھیکہ ملا،
  • 5:10 - 5:12
    بیجنگ اولمپکس کے لیے۔
  • 5:12 - 5:14
    اب، اس عمارت میں،
  • 5:14 - 5:19
    ڈھائی ہزار تن ومند قسم
    کے گھوڑوں نے آنا تھا،
  • 5:19 - 5:21
    جو لمبی ھوائی مسافت کے بعد پہنچ رھے تھے،
  • 5:21 - 5:25
    ھوائی سفر کے اثرات کی وجہ سے،
    وہ بہتر محسوس نہیں کررھے ھونگے۔
  • 5:25 - 5:28
    اور انجنیرز کےلیے مسئلہ یہ تھا کہ،
  • 5:28 - 5:32
    وہ گھوڑوں کی کتنی لید کے لیے بندونست کریں؟
  • 5:33 - 5:37
    اب یہ انجنیرنگ سکول میں آپکو
    کوئی نہیں پڑھاتا -- (قہقہے) --
  • 5:37 - 5:40
    اور یہ ایسی چیز بھی نہیں تھی کہ آپ
    اس میں کوئی غلطی کر سکیں،
  • 5:40 - 5:44
    تو وہ اس کام کے لیے مہینوں تک
    جانوروں کے ڈاکٹروں سے تحقیق کر سکتے تھے،
  • 5:44 - 5:46
    حساب کتاب کی بڑی بڑی کتابیں کھول سکتے تھے۔
  • 5:46 - 5:49
    اس کے بجائے، انہوں نے مدد مانگی
  • 5:49 - 5:53
    اور انہوں نے نیویارک کے گھڑسوار کلب
    کے بنانے والےکو ڈھونڈ نکالا۔
  • 5:53 - 5:57
    مسئلے کا حل ایک دن سے بھی کم میں مل گیا۔
  • 5:57 - 6:00
    اروپ کا خیال ھے کہ مدد کا یہ طریقہ
  • 6:00 - 6:03
    انکی کامیابی کا بنیادی کردار ھے۔
  • 6:03 - 6:07
    اب، مدد مانگنا کچھ عجیب سا لگتا ھے،
  • 6:07 - 6:11
    لیکن یہ کامیاب گروہوں کے لیے
    انتہائی ضروری چیز ھے،
  • 6:11 - 6:17
    اور یہ روزمرہ زندگی میں انفرادی ذہانت
    کو بہت پیچھے چھوڑ دیتا ھے۔
  • 6:17 - 6:20
    مدد مانگنے کا مطلب ھے مجھے ہر چیز کا
    علم ھونا ضروری نہیں ھے،
  • 6:20 - 6:26
    مجھے صرف ان لوگوں کے ساتھ کام کرنا ھے جو
    مدد دینے اور مدد لینے کا ھنر جانتے ھیں۔
  • 6:26 - 6:31
    سیپ (ادارہ) میں، انکا خیال ھے کہ ہر سوال
    کا جواب سترہ منٹ میں دیا جا سکتا ھے،
  • 6:32 - 6:35
    لیکن میں نے کسی ایک بھی ایسی
    ہائی ٹیک کمپنی کے ساتھ کام نہیں کیا،
  • 6:35 - 6:41
    جن کا خیال یہ ھو کہ یہ کوئی
    ٹیکنالوجی کا مسئلہ ھے،
  • 6:41 - 6:45
    کیونکہ مدد مانگنے پر لوگوں کو
    ایک دوسرے کو سمجھنا پڑے گا۔
  • 6:46 - 6:51
    یہ تو ایک کھلی سی بات ھے، اور ہمیں لگے
    کہ یہ تو خود بخود ہوتا ہے،
  • 6:51 - 6:52
    لیکن ایسا نہیں ھوتا۔
  • 6:52 - 6:56
    جب میں اپنی پہلی سوفٹ ویر
    کی کمپنی چلا رہی تھی،
  • 6:56 - 6:58
    مجھے لگا کہ ھم پھنس کر رہ گئے ھیں۔
  • 6:58 - 7:02
    ایک دوسرے سے بس مزاحمت ہی نظر آتی تھی،
  • 7:02 - 7:06
    تو مجھے احساس ھوا کہ وہ قابل اور
    تخلیقی لوگ جو میں نے رکھے تھے،
  • 7:06 - 7:08
    ایک دوسرے سے ناواقف تھے۔
  • 7:08 - 7:12
    ان کی توجہ صرف اپنے اپنے کاموں پر تھی،
  • 7:12 - 7:16
    انہیں تو اس بات کا بھی علم نہ تھا
    کہ وہ کس کے ساتھ بیٹھے ھیں،
  • 7:16 - 7:19
    اور پھر میں نے اس بات پر اصرار کیا
    کہ ھمیں کام روک کر
  • 7:19 - 7:21
    ایک دوسرے کو جاننے میں وقت صرف کرنا چاہیے،
  • 7:21 - 7:24
    تا کہ ھم صحیح معنوں میں رفتار پکڑ سکیں۔
  • 7:24 - 7:27
    یہ تو بیس سال پہلے کی بات تھی،
    تو اب جب میں اداروں میں جاتی ھوں،
  • 7:27 - 7:30
    جنہوں نے میز پر کافی پینے پر
    پابندی لگائی ہے
  • 7:30 - 7:34
    تاکہ لوگ کافی کی مشین کے آس پاس ملیں
  • 7:34 - 7:36
    اور گپ شپ لگائیں۔
  • 7:36 - 7:39
    سویڈن والوں نے تو اس کو ایک نام
    بھی دے دیا ھے۔
  • 7:39 - 7:42
    وہ اس کو فیقا کہتے ھیں، جسکا مطلب ھے
    کافی کے لیے وقفہ سے بڑھ کر۔
  • 7:42 - 7:46
    اسکا مطلب ھے اجتماعی بحالی۔
  • 7:46 - 7:49
    مین (ریاست) میں ایک کمپنی ھے ایڈیکس،
  • 7:49 - 7:52
    انہوں نے تو اپنے ادارے میں ایک سبزیوں
    کا باغ لگا دیا ھے تاکہ لوگ
  • 7:52 - 7:54
    جو کاروبار کے مختلف شعبوں سے متعلق ہیں
  • 7:54 - 7:59
    اکٹھے کام کر سکیں، اور اس طرح پورے
    کاروبار کے بارے میں جان سکیں۔
  • 7:59 - 8:01
    تو کیا یہ سب پاگل ھو گئے ھیں؟
  • 8:01 - 8:05
    معاملہ اسکے برعکس ھے -- وہ اس نتیجہ پر
    پہنچے ھیں کہ جب معاملات مشکل ھو جاتے ھیں،
  • 8:05 - 8:07
    اور معاملات ہمیشہ مشکل ہو جاتے ہیں،
  • 8:07 - 8:09
    اگرآپ بہت ہی اہمیت کا کام کر رہے ہیں،
  • 8:09 - 8:12
    تو لوگوں کو معاشرتی مدد کی ضرورت پڑتی ھے،
  • 8:12 - 8:15
    اور ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ
    مدد کس سے مانگیں۔
  • 8:15 - 8:20
    نئی سوچ لوگوں کے پاس ھوتی ہے:
    اداروں کے پاس نہیں۔
  • 8:20 - 8:23
    اور کون سی چیز لوگوں کو ابھارتی ھے
  • 8:23 - 8:27
    وہ لوگوں کا آپس میں تعلق، وفاداری
    اور اعتماد ھوتا ھے۔
  • 8:28 - 8:31
    دراصل مسالہ اھم ھوتا ھے،
  • 8:31 - 8:34
    صرف اینٹیں اھم نہیں ھوتیں۔
  • 8:34 - 8:36
    اب، جب ان تمام چیزوں کو ملائیں،
  • 8:36 - 8:39
    تو جو چیز آپکو ملے گی اس کو
    سماجی سرمایہ کہتے ھیں۔
  • 8:39 - 8:45
    سماجی سرمایہ دراصل وہ بھروسا اور باہمی
    انحصار ھے جو اعتماد کو جنم دیتا ھے۔
  • 8:45 - 8:48
    یہ اصطلاح ان ماہرین سماجیات نے ایجاد کی
    جو معاشرے کا مطالعہ کرتے ھیں
  • 8:48 - 8:53
    یہ کشیدگی کے وقت میں بہت
    لچکدار ثابت ھوئی ھے۔
  • 8:53 - 8:58
    سماجی سرمایہ وہ چیز ھے جو اداروں
    کو متحرک بناتا ہے،
  • 8:58 - 9:03
    اور سماجی سرمایہ اداروں کو
    مظبوط بناتا ھے۔
  • 9:04 - 9:06
    عملی طور پر اسکا مطلب کیا ھے؟
  • 9:07 - 9:11
    اسکا مطلب ھے بروقت فیصلے سب سے اھم ہیں،
  • 9:11 - 9:15
    کیونکہ سماجی سرمایہ وقت کے
    ساتھ ساتھ بڑھتا رہتا ھے۔
  • 9:15 - 9:21
    چنانچہ گروہ جو لمبے عرصے تک اکٹھے کام کرتے
    ہیں بہتر ھو جاتے ھیں، کیونکہ وقت لگتا ھے
  • 9:21 - 9:26
    اعتماد بنانے کے لیے جو حقیقی معنوں میں سوچ
    اور باہمی معاملات میں کشادگی پیدا کرے۔
  • 9:26 - 9:30
    اور وقت ہی اقدارکی تعمیر کرتا ھے۔
  • 9:31 - 9:33
    جب ایلکس پنٹ لینڈ نے ایک
    ادارے کو مشورہ دیا کہ
  • 9:33 - 9:36
    وہ کافی کے وقفے کو ایک ہی وقت میں کریں
  • 9:36 - 9:39
    تا کہ لوگوں کو ایک دوسرے سے
    بات کرنے کا موقع مل سکے،
  • 9:39 - 9:43
    ان کا منافع پندرہ کروڑ ڈالر بڑھ گیا،
  • 9:43 - 9:47
    اور انکے ملازمین کے اطمینان میں
    دس فیصد اضافہ ھو گیا۔
  • 9:47 - 9:50
    تو پھر سماجی سرمایہ نے خوب منافع دیا،
  • 9:50 - 9:54
    اور اس کو جتنا خرچ کریں
    یہ اتنا ہی بڑھتا ھے۔
  • 9:54 - 10:00
    لیکن یہ صرف میل جول کے لیے نہیں ہے اور
    نہ ہی کام چوروں کے لیے،
  • 10:00 - 10:05
    کیونکہ اس طرح کے لوگ
    بال کی کھال اتارنے والے،
  • 10:05 - 10:09
    بے صبرے اور ہر حال میں صرف
    اپنا سوچنے والے ھوتے ھیں،
  • 10:09 - 10:13
    کیونکہ انکا کام یہی ھوتا ھے۔
  • 10:13 - 10:18
    اس طریقے میں اختلاف اکثر ھوتا ھے
    کیونکہ رشتے میں ایک کھلا پن ھوتا ھے۔
  • 10:18 - 10:23
    اور اسی طریقہ سے اچھے خیالات
    عظیم خیالات بن جاتے ھیں،
  • 10:23 - 10:27
    کیونکہ کوئی بھی خیال مکمل پیدا نہیں ھوتا۔
  • 10:27 - 10:30
    یہ ایک نئے پیدا ھونے والے بچے کی طرح
    چھوٹا سا جنم لیتا ھے،
  • 10:30 - 10:34
    ایک طرح سے الجھا اور اٹکا ہوا
    لیکن امکانات سے بھرپور۔
  • 10:34 - 10:41
    اور یہ صرف بہت سارے لوگوں کی اچھی
    شراکت داری، یقین اور کوشش سے،
  • 10:41 - 10:44
    کامیابی پاتا ہے۔
  • 10:44 - 10:48
    اور سماجی سرمایہ بنیادی طور پر
    یہی کام کرتا ھے۔
  • 10:49 - 10:52
    لیکن ھم عام طور پر اس پہلو پر
    بات کرنے کے عادی نہیں،
  • 10:52 - 10:56
    کسی کی صلاحیتوں اور تخلیقی پن کے بارے میں۔
  • 10:56 - 11:00
    ھم بڑی شخصیات کی بات کرنے کے عادی ھیں۔
  • 11:00 - 11:04
    تو میں نے اس بارے میں سوچنا شروع کیا کہ
    اگر ھم اس طرح سے کام کرنا شروع کر دیں،
  • 11:04 - 11:07
    اس کا مطلب ھوا کہ اب کوئی بڑی شخصیت نہیں؟
  • 11:07 - 11:10
    تو میں گئی اور میں آڈیشن میں جا کر بیٹھی،
  • 11:10 - 11:14
    جو لندن کے رائل فنِ ڈرامہ
    مرکز والے کرتے تھے۔
  • 11:14 - 11:17
    اور جو میں نے وہاں دیکھا اس سے
    میں بہت حیران ھوئی،
  • 11:17 - 11:22
    کیونکہ وہاں پر استاد کسی انفرادی طور پر
    بہت بڑے فنکار کی تلاش نہیں کر رھے تھے۔
  • 11:22 - 11:26
    وہ اس بات کا جائزہ لے رھے تھے کہ
    طلبا کے بیچ میں معاملات کیسے چل رھے تھے،
  • 11:26 - 11:31
    کیونکہ دراصل صحیح ڈرامہ تو وہیں ہوتا یے۔
  • 11:31 - 11:33
    اور جب میں نے کامیاب البمز کے
    پروڈیوسرز سے بات کی،
  • 11:33 - 11:36
    تو انہوں نے کہا کہ "ہاں یقیناً ھماری
    موسیقی میں بہت بڑے بڑے نام ھیں۔
  • 11:36 - 11:39
    لیکن دراصل یہ لوگ زیادہ دیر چلتے نہیں۔
  • 11:39 - 11:43
    لمبے عرصے تک کامیاب وہ رہتے ھیں
    جو دوسروں سے تعاون کرتے ھیں۔
  • 11:43 - 11:47
    کیونکہ انکی اچھائی دوسروں میں اچھائی
    تلاش کرنے کے نتیجے میں،
  • 11:47 - 11:49
    انکے اپنے اندر ظاہر ھوتی ھے۔"
  • 11:49 - 11:52
    اور جب میں ان نامی گرامی اداروں میں گئی جو
    جانے جاتے ھیں
  • 11:52 - 11:54
    اپنی تخلیق اور جدت پسندی کی وجہ سے،
  • 11:54 - 11:57
    تو مجھے کوئی بڑی شخصیت نظر بھی نہیں آئی،
  • 11:57 - 12:01
    کیونکہ وہاں ہر فرد کی اہمیت تھی۔
  • 12:01 - 12:04
    اور جب میں نے اپنی عملی زندگی پر نظر ڈالی،
  • 12:04 - 12:08
    اور ان اھم لوگوں کا جن کے ساتھ
    کام کرنے کا مجھے اعزاز حاصل ھوا،
  • 12:08 - 12:14
    تو مجھے احساس ھوا کہ ھم ایک دوسرے
    کے لیے اور بھی کتنا کچھ کر سکتے ھیں
  • 12:14 - 12:19
    اگر ھم دوسروں پر رعب جمانا بند کر دیں۔
  • 12:19 - 12:25
    (قہقہے) (تالیاں)
  • 12:25 - 12:31
    جب آپ کو معاشرتی بھلائی کی
    صحیح سمجھ آ جائے،
  • 12:31 - 12:34
    تو پھر بہت ساری چیزیں کو تبدیل ھونا چاہیے۔
  • 12:34 - 12:39
    مقابلے کے ذریعے سے انتظام عام طور پر
  • 12:39 - 12:41
    ملازمین کو ایک دوسرے کے
    مقابلے پر لے آتا ہے۔
  • 12:41 - 12:46
    اب اس دشمنی کو سماجی سرمایہ کے
    ساتھ تبدیل کرنا ھو گا۔
  • 12:46 - 12:49
    ھم دہائیوں سے لوگوں کو پیسے کے ذریعے
    ترغیب دینے کی کوشش کرتے رھے ھیں،
  • 12:49 - 12:53
    حالانکہ ھمارے پاس بڑے پیمانے پر اس طرح
    کی تحقیق موجود ہے جو دکھاتی ہے
  • 12:53 - 12:56
    کہ پیسہ سماجی بگاڑ کا سبب بن رہا ھے۔
  • 12:57 - 13:02
    اب ھمیں لوگوں کو ایک دوسرے کو
    ترغیب دینے پر آمادہ کرنا ھے۔
  • 13:03 - 13:08
    اور سالوں تک ھم سوچتے رھے کہ رہنما
    تن تنہا جانباز ھوتے ھیں جن سے توقع ہوتی ہے
  • 13:08 - 13:11
    کہ وہ اکیلے ہی مشکل سےمشکل
    مسائل کا حل تلاش کر لیں گے۔
  • 13:11 - 13:14
    اب ھمیں رہمنائی کی نئی تشریح کرنی ہو گی
  • 13:14 - 13:18
    ایک ایسے منصوبے کے طور پر
    جس میں ایسے حالات پیدا کیے جائیں
  • 13:18 - 13:24
    جن میں ہر شخص اپنی سوچ بغیر کسی خوف اور
    ڈر کے سب کے ساتھ مل کر بروئے کار لا سکے۔
  • 13:24 - 13:28
    اور ھم یہ جانتے ھیں کہ یہ کام مفید ھے۔
  • 13:28 - 13:33
    جب مونٹریال ضوابط کے تحت سی ایف سی
    کو بتدریج ختم کرنے کی بات چلی،
  • 13:33 - 13:37
    کیونکہ کلوروفلوروکاربن اوزون کی تہہ میں
    سوراخ کرنے کی ایک وجہ بن رہی تھی،
  • 13:37 - 13:39
    خطرات بہت زیادہ تھے،
  • 13:39 - 13:42
    کیونکہ سی ایف سی کا استعمال ہر جگہ تھا،
  • 13:42 - 13:45
    اور کسی کو علم نہ تھا کہ اس کا متبادل
    ملے گا بھی یا نہیں۔
  • 13:45 - 13:51
    لیکن ایک ٹیم جس نے اس کے حل کا بیڑہ اٹھایا
    اس نے تین اہم اصول اپنائے۔
  • 13:51 - 13:55
    انکے سربراہ فرینک ماسلن نے بتایا
    پہلا اصول یہ تھا کہ،
  • 13:55 - 13:58
    اس ٹیم میں کوئی بڑا چھوٹا نہیں ھوگا۔
  • 13:58 - 14:00
    ھمیں اس کام کے لیے ہر بندے کی ضرورت ہے۔
  • 14:00 - 14:03
    ہر ایک کا نقطہ نظر اہم ہے۔
  • 14:03 - 14:08
    دوسرا، ھمارا کام کرنے کا معیار صرف ایک ھے:
  • 14:08 - 14:10
    بہترین حل جو ممکن ھو۔
  • 14:11 - 14:14
    اور تیسرا، اس نے اپنے سربراہ جیوف ٹڈ ھوپ
    کو بتایا،
  • 14:14 - 14:16
    کہ اسے اپنے آپ کو باہر رکھنا ھو گا،
  • 14:16 - 14:19
    کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ شخصی اختیارات
    کیسے کام خراب کر سکتے ھیں۔
  • 14:19 - 14:22
    اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ
    ٹڈ ھوپ نے کچھ کیا ہی نہیں۔
  • 14:22 - 14:23
    اس نے اپنی ٹیم کو تحفظ کا احساس دیا،
  • 14:23 - 14:28
    اور اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ اپنے
    بنائے گئے اصولوں پر عمل کرتے رہیں۔
  • 14:28 - 14:34
    اور اس نے کام کر دکھایا، دوسرے تمام اداروں
    سے پہلے جو اس مسئلے پر کام کر رہے تھے،
  • 14:34 - 14:38
    اس گروہ نے اس کا حل ڈھونڈ نکالا۔
  • 14:38 - 14:40
    اور آج کے دن تک، وہ مونٹریال ضوابط
  • 14:40 - 14:46
    بین الاقوامی دنیا کا سب سے کامیاب
    ماحولیاتی معاہدہ ھے
  • 14:46 - 14:48
    کیے گئے تمام معاہدوں میں۔
  • 14:49 - 14:52
    اس وقت بہت کچھ داو پر لگا ہوا تھا،
  • 14:52 - 14:55
    اور اسی طرح آج بھی بہت کچھ داو پر لگا ہے،
  • 14:55 - 14:59
    اور ھم ان مسئلوں کا حل کبھی نہ نکال
    پائیں گے اگر ھماری توقع یہی رہی کہ
  • 14:59 - 15:02
    یہ کام تو صرف بڑی بڑی شخصیات
    ہی کر سکتی ہیں۔
  • 15:02 - 15:05
    اب ہمیں سب کی ضرورت ہے،
  • 15:05 - 15:12
    کیونکہ جب ھم یہ بات تسلیم کرتے ھیں
    کہ ہر بندے کی ایک اھمیت ھے
  • 15:12 - 15:19
    تبھی ھم ہر شخص کی توانائی، تخیلاتی قوت
    اور رفتار سے مستفیذ ھو سکتے ھیں
  • 15:19 - 15:23
    اور پھر نا ممکن کا حصول ممکن ھو جاتا ھے۔
  • 15:23 - 15:26
    شکریہ۔
  • 15:26 - 15:30
    (تالیاں)
Title:
اداروں میں افسر ماتحت کے فرق کو اب بھول جائیں
Speaker:
مارگریٹ ہیفرنین
Description:

اداروں میں عام طور پر کام کرنے کی روایت سپر چکن ماڈل پر ھے، ان چند ملازمین کی بہت اھمیت ھوتی ھے جو دوسروں سے بہت بہتر کام کرتے ھیں۔ لیکن وہ ٹیم جو بہت اعلٰی کام کے لیے جانی جاتیں ھیں، وہ اس طرز پر کام نہیں کرتیں۔ بزنس رہنما مارگریٹ ہیفرنین کی سوچ یہ ھے کہ معاشرتی بندھن — جہاں کافی کے وقفے میں ہر فرد دوسرے سے مدد طلب کرتا ھے — ایسے ادراے بہت اعلی نتائج دیتے ھیں۔ یہ ایک انتہائی مختلف سوچ ھے، جو ھمیں بتاتی ھے کہ ھم بہترین کام کیوں کرتے ھیں، اور رہنما ھونے کا مطلب کیا ھے۔ کیونکہ جیسے ہیفر نین کہتی ھے، خیالات اداروں کے پاس نہیں لوگوں کے پاس ھوتے ھیں۔

more » « less
Video Language:
English
Team:
closed TED
Project:
TEDTalks
Duration:
15:47

Urdu subtitles

Revisions