Return to Video

ہم اس دنیا کو کتنا مساوی دیکھنا چاہتے ہیں؟ آپ حیران رہ جائیں گے

  • 0:01 - 0:04
    زندگی میں بلا امتیازہونا ایک اچھی بات ہے
    (ترجیحات اور تعصبات کے بغیر)
  • 0:04 - 0:06
    کئی طریقوں سے
  • 0:06 - 0:09
    مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس
    کافی رنگ کے چشمے ہیں
  • 0:09 - 0:14
    جن کو ہم مختلف معاملات
    میں استعمال کرتے ہیں
  • 0:14 - 0:17
    مثال کے طور پرہم ایک عام سی
    مشروب بیئر کو ہی لے لیں
  • 0:17 - 0:20
    اگر میں آپ کو مختلف اقسام
    کی بیئر چکھنے کو دوں
  • 0:20 - 0:23
    اور کہوں کہ ان کے ذائقے کو شدت
    اور تلخی کے معیار پر پرکھیں
  • 0:23 - 0:27
    تو مختلف بیئرز مختلف
    درجات لے لیں گی
  • 0:27 - 0:30
    مگر کیا ہو اگر ہم اس
    معاملے میں بلا امتیاز ہو جائیں؟
  • 0:30 - 0:32
    بیئر کی مثال تو سادہ سی ہے
  • 0:32 - 0:34
    اگر ہم ذائقے کا معیار 'بغیر دیکھے' جانچیں؟
  • 0:34 - 0:37
    اسی طرح انہیں بیئرز کو چکھیں
  • 0:37 - 0:41
    اب اس اندھی آزمائش میں
    نتیجے بدلنے لگے گیں -
  • 0:41 - 0:43
    زیادہ تربیئرزتو ایک ہی
    درجے میں آجائیں گی
  • 0:43 - 0:45
    آپ کے لئے ان میں فرق کرنا مشکل ہوجائے گا
  • 0:45 - 0:49
    گینیز کو بہرحال رعایت مل ہی جائے گی
  • 0:49 - 0:51
    ( ہنسی )
  • 0:51 - 0:54
    اسی طرح حیاتیات کی قسم جو انسانی اعضا
    کے بارے میں ہے اس پر سوچتے ہیں
  • 0:54 - 0:57
    کیا ہوتا ہے جب لوگ اپنے جسم
    سے کچھ امیدیں باندھتے ہیں
  • 0:57 - 0:59
    مثلا ہم لوگوں کو درد کی دوا بیچتے ہیں
  • 0:59 - 1:02
    کچھ لوگوں کو ہم بتاتے ہیں علاج مہنگا تھا
  • 1:02 - 1:04
    کچھ سے کہتے ہیں علاج سستا تھا
  • 1:04 - 1:07
    اوردرد کی مہنگی دوا نے بہتر اثرکیا
  • 1:07 - 1:09
    اس نے لوگوں کو درد سے زیادہ نجات دلائی
  • 1:09 - 1:13
    کیوںکہ امیدیں ہماری حیاتیات
    کو تبدیل کردیتی ہیں
  • 1:13 - 1:15
    جیسے کہ ہم سب کھیلوں میں دیکھتے ہیں
  • 1:15 - 1:17
    اگرآپ کسی مخصوص ٹیم کے مداح ہیں
  • 1:17 - 1:19
    حالانکہ آپ کھیل میں کوئی
    مدد نہیں کرپاتے مگر پھر بھی
  • 1:19 - 1:23
    اپنی پسندیدہ ٹیم کی طرف
    سے ہی کھیل دیکھتے ہیں
  • 1:23 - 1:27
    یہ وہ تمام معاملات ہیں جن میں
    ہمارے قبل از وقت تصورات
  • 1:27 - 1:30
    اور ہماری قبل از امیدیں ہماری
    سوچ کوگدلا کر دیتی ہیں
  • 1:30 - 1:34
    مگردیگر اہم معاملات
    میں کیا ہوتا ہے؟
  • 1:34 - 1:37
    ان معاملات میں جن کا تعلق
    معاشرتی عدل سے ہے ؟
  • 1:37 - 1:41
    تو اب ہم چاہتے تھے کہ اسی طرح
    'بنا دیکھے ' قسم کا ایک طریقہ
  • 1:41 - 1:44
    معاشرے میں عدم مساوات کو
    جانچنے کے لئے بھی اپنایا جاۓ
  • 1:44 - 1:46
    تب ہم نے عدم مساوات کو دیکھنا شروع کیا
  • 1:46 - 1:48
    اور اس کے لئے ہم نے بڑے
    پیمانے پر سروے کئے
  • 1:48 - 1:50
    امریکہ اور دیگر ممالک میں
  • 1:50 - 1:52
    اس سروے میں ہم نے دوسوالات پوچھے
  • 1:52 - 1:56
    کیا لوگ جانتے ہیں ہمارے یہاں کس قسم
    کی سطح تک عدم مساوات موجود ہے؟
  • 1:56 - 2:00
    اور پھرعدم مساوات کی کون سی
    سطح ہمارے لئے قابل قبول ہے ؟
  • 2:00 - 2:02
    آئیے پہلے اول سوال پر غور کریں
  • 2:02 - 2:04
    بالفرض میں امریکہ کے
    تمام لوگ شامل کرتا ہوں
  • 2:04 - 2:07
    اور انھیں ایسے ترتیب دیتا ہوں
    کہ غریب ترین دائیں جانب
  • 2:07 - 2:10
    اور امیر ترین بائیں جانب
  • 2:10 - 2:12
    پھر انھیں پانچ گروہوں میں تقسیم کردیتا ہوں
  • 2:12 - 2:15
    غریب ترین بیس فیصد،
    پھر اگلے بیس فیصد
  • 2:15 - 2:17
    پھر اگلے، پھر اگلے
    اور پھر امیر ترین بیس فیصد
  • 2:17 - 2:20
    پھر آپ سے سوال کرتا ہوں کہ بتائیں
    آپ کے خیال میں کتنی دولت
  • 2:20 - 2:23
    ہر گروہ کے پاس موجود رہتی ہے
  • 2:23 - 2:26
    اسے اور آسان کرتے ہیں فرض کریں
    میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ مجھے بتایئے
  • 2:26 - 2:28
    آپ کے خیال میں کتنی دولت
  • 2:28 - 2:30
    نچلی سطح کے دو گروہوں
    کے پاس موجود ہے
  • 2:30 - 2:33
    سب سے نیچے والے چالیس فیصد؟
  • 2:33 - 2:35
    ایک لمحہ لیجئے، سوچیں،
    اور ایک عدد سوچئے
  • 2:35 - 2:37
    عموما ہم نہیں سوچتے
  • 2:37 - 2:40
    ایک لمحے کے لئے سوچیں اپنے
    ذہن میں ایک حقیقی نمبرلائیے
  • 2:40 - 2:41
    آگیا نمبر ذہن میں؟
  • 2:41 - 2:44
    اچھا تو یہ ہے جو
    ہمیں بہت سے امریکی بتاتے ہیں
  • 2:44 - 2:46
    وہ سمجھتے ہیں کہ نیچے کے بیس فیصد
  • 2:46 - 2:49
    کے پاس تقریبا 2.9 فی صد دولت ہے
  • 2:49 - 2:51
    اگلے گروہ کے پاس 6.4 فی صد
  • 2:51 - 2:53
    تو مل کر یہ تقریبا 9 فی صد
    سے تھوڑا سا زیادہ ہوجاتا ہے
  • 2:53 - 2:57
    ان کے خیال میں اگلے گروہ کے پاس
    12 فی صد دولت ہے
  • 2:57 - 2:58
    20 فی صد،
  • 2:58 - 3:03
    اور لوگوں کے خیال مِیں 20 فی صد
    مالدارترین افراد 58 فی صد دولت رکھتے ہیں
  • 3:03 - 3:06
    اب آپ اندازہ کرلیں یہ آپ کے سوچے ہوۓ
    نمبر سے کتنے ملتے جلتے ہے؟
  • 3:06 - 3:08
    اب جانیئے حقیقت کیا ہے؟
  • 3:08 - 3:10
    حقیقت قدرے مختلف ہے
  • 3:10 - 3:14
    نچلے گروہ کے 20 فی صد افراد
    0.1 فی صد دولت کے مالک ہیں
  • 3:14 - 3:17
    اگلے 20 فی صد افراد 0.2
    فی صد دولت کے مالک ہیں
  • 3:17 - 3:19
    یہ مل کر بن جاتا ہے، 0.3 فی صد
  • 3:19 - 3:22
    اگلے گروہ کے پاس 3.9 فی صد دولت ہے
  • 3:22 - 3:25
    11.3
  • 3:25 - 3:30
    اور مالدار ترین گروہ
    84-85 فی صد دولت کا مالک ہے
  • 3:30 - 3:33
    تو جو اصل میں ہمارے پاس ہے اور
    جو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس ہے
  • 3:33 - 3:35
    اس میں بہت فرق ہے
  • 3:35 - 3:37
    اب دیکھتے ہیں ہم چاہتے کیا ہیں؟
  • 3:37 - 3:39
    تو اس قدرے مشکل جواب کو
    معلوم کیسے کیا جاۓ ؟
  • 3:39 - 3:41
    اس چیز کو سمجھنے کے لئے
  • 3:41 - 3:42
    کہ آخر ہم چاہتے کیا ہیں
  • 3:42 - 3:45
    ہمارے ذہن میں فلسفی "جان رالز" کا خیال آیا
  • 3:45 - 3:47
    اگر آپ کو "جان رالز" یاد ہوں
  • 3:47 - 3:51
    ان کے پاس ایک عادلانہ معاشرے
    کا تصور موجود تھا
  • 3:51 - 3:52
    ان کے مطابق ایک منصفانہ معاشرہ
  • 3:52 - 3:55
    ایسا ہوتا کہ کہ اگر آپ
    اس کے بارے میں سب کچھ جان جائیں
  • 3:55 - 3:57
    تو آپ کی خواہش ہوگی کہ کسی
    بھی سطح پر اس کا حصہ بن جائیں
  • 3:57 - 3:59
    یہ ایک خوبصورت تعریف ہے
  • 3:59 - 4:01
    کیوںکہ اگر آپ مالدار ہیں تو
    آپ مالدار ہی رہنا چاہیں گے
  • 4:01 - 4:03
    کہ آپ کو اور دولت ملے
    اور غریب کو کم
  • 4:03 - 4:05
    اگرآپ غریب ہیں تو شاید
    آپ زیادہ مساوات چاہیں گے
  • 4:05 - 4:07
    لیکن اگر آپ اس معاشرے کا
    حصہ بننے جارہے ہیں
  • 4:07 - 4:11
    ہر ممکنہ صورت میں،
    اور آپ زیادہ جانتے بھی نہیں ہیں
  • 4:11 - 4:13
    تو آپ کو ہرمعاملے کو مدنظر رکھنا ہوگا
  • 4:13 - 4:16
    یہ کچھ اس اندھی آزمائش جیسا ہے
    جس میں آپ نہیں جانتے
  • 4:16 - 4:18
    کہ آپ کے اس فیصلے کے
    نتائج کیا ہوسکتے ہیں
  • 4:18 - 4:22
    "رالز" نے اسے 'لاعلمی کا پردہ' کہا ہے
  • 4:22 - 4:26
    ہم نے ایک اور گروہ منتخب کیا،
    امریکیوں کا ایک بڑا گروہ
  • 4:26 - 4:29
    اور اسی لاعلمی کے پردے میں
    ہم نے اس گروہ سے پوچھا
  • 4:29 - 4:33
    کسی ملک میں ایسی کیا خصوصیات ہوں،
    کہ آپ اس کے شہری بننا چاہیں گے
  • 4:33 - 4:36
    جب کہ آپ جانتے ہوں کہ آپ کوکسی
    بھی حصے میں جانا پڑسکتا ہے؟
  • 4:36 - 4:37
    اور جو جواب ملا
    وہ کچھ ایسے تھا
  • 4:37 - 4:40
    لوگ پہلے گروہ کو کیا دینا چاہتے ہیں،
  • 4:40 - 4:42
    نیچے کے بیس فی صد افراد کو؟
  • 4:42 - 4:44
    ان کے خیال میں اس گروہ کو
    10 فی صد دولت ملنی چاہئے
  • 4:44 - 4:47
    اگلے گروہ کو دولت کا 20 فیصد حصہ
  • 4:47 - 4:52
    21, 22 اور 32
  • 4:52 - 4:56
    تو ہماری مثال میں کوئی بھی
    مکمل مساوات نہیں چاہتا
  • 4:56 - 5:00
    ہماری مثال میں کسی کا بھی خیال نہیں
    کہ سوشلزم کوئی اچھا نظریہ ہے
  • 5:00 - 5:02
    تو اس کا مطلب کیا ہے؟
  • 5:02 - 5:04
    اس کا مطلب ہے کہ معلومات کا کچھ فرق ضرور ہے
    کس کے درمیان
  • 5:04 - 5:06
    جو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس ہے
    اور اصل میں جو ہمارے پاس ہے
  • 5:06 - 5:10
    لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ایک بڑا بہت فاصلہ
    جو ہم سمجھتے ہیں کہ صحیح ہے اور جو
  • 5:10 - 5:13
    اصل میں موجود ہے اس کے درمیان بھی موجود ہے
  • 5:13 - 5:16
    اب ہم نہ صرف دولت کے لئے
    یہ سوالات اٹھا سکتے ہیں
  • 5:16 - 5:18
    بلکہ دیگر معاملات کے بارے
    میں بھی پوچھ سکتے ہیں
  • 5:18 - 5:23
    مثلا ہم نے دنیا کے مختلف حصوں
    کے لوگوں سے پوچھا
  • 5:23 - 5:24
    اسی سوال کے بارے میں
  • 5:24 - 5:27
    آزاد خیال اور قدامت پسند
    سوچ رکھنے والوں سے
  • 5:27 - 5:29
    ان کا جواب بھی تقریبا یہی تھا
  • 5:29 - 5:31
    ہم نے امیر و غریب سے پوچھا،
    انھوں نے بھی یہی جواب دیا
  • 5:31 - 5:33
    عورتوں اور مردوں سے،
  • 5:33 - 5:35
    سرکاری ریڈیو سننے والوں،
    اور فوربز کے قارئین سے
  • 5:35 - 5:38
    ہم نے انگلستان، آسٹریلیا، امریکہ کے
    لوگوں سے پوچھا
  • 5:38 - 5:40
    بہت ملتے جلتے جوابات
  • 5:40 - 5:43
    یہاں تک کہ ایک یونیورسٹی کے
    مختلف شعبہ جات سے پوچھا
  • 5:43 - 5:46
    ہم ہارورڈ گئے، تقریبا ہرشعبے کو کھنگالا
  • 5:46 - 5:48
    اور سچ میں، ہارورڈ بزنس اسکول میں
  • 5:48 - 5:51
    جہاں کچھ چاہتے تھے کہ مالدار
    کو مزید ملے، ثروت مند کوکم
  • 5:51 - 5:54
    یہ یکسانیت حیران کن تھی
  • 5:54 - 5:57
    جانتا ہوں کہ یہاں کچھ حضرات
    ہارورڈ بزنس اسکول کا حصہ رہے ہیں
  • 5:57 - 6:00
    ہم نے یہ سوال کسی اور بارے میں بھی کیا
  • 6:00 - 6:05
    ہم نے ایک CEO اور غیر تربیت یافتہ کی
    تنخواہ کے تناسب کے بارے میں پوچھا؟
  • 6:05 - 6:08
    تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ
    لوگوں کے خیال میں تناسب کیا ہے
  • 6:08 - 6:12
    تو پھر ہم پوچھ سکتے ہیں، ان کے خیال میں
    یہ تناسب کیا ہونا چاہئے؟
  • 6:12 - 6:15
    اور پھر ہم پوچھ سکتے ہیں،
    حقیقت کیا ہے؟
  • 6:15 - 6:18
    حقیقت کیا ہے؟ اورآپ کہہ سکتے ہیں،
    یہ اتنی بری تو نہیں، ۔۔۔ صحیح؟
  • 6:18 - 6:20
    لال اور پیلا اتنا مختلف تو نہیں ہیں۔
  • 6:20 - 6:24
    مگر حقیقتا اس کی وجہ ہے کہ
    میں نے انھیں ایک پیمانے پر نہیں بنایا
  • 6:26 - 6:30
    یہ دیکھنا بہت مشکل ہے
    کہ پیلا اور نیلا رنگ بھی وہاں موجود ہے
  • 6:30 - 6:32
    تو پھر دولت کے دیگر نتائج کیا ہیں؟
  • 6:32 - 6:34
    دولت ہرگز برائے دولت نہیں ہے
  • 6:34 - 6:37
    ہم نے دیگر چیزوں جیسا
    کہ صحت کے بارے میں پوچھا؟
  • 6:37 - 6:41
    ہم نے ڈاکٹر کی لکھی ہوئی دوا
    کی سہولت کے بارے میں پوچھا؟
  • 6:41 - 6:43
    زندہ رہنے کے مواقع کتنے ہیں؟
  • 6:43 - 6:45
    نوزائیدہ بچوں زندگی کی امید کتنی ہے؟
  • 6:45 - 6:48
    ہم اس سب کو کیسے تقسیم کرنا چاہتے ہیں؟
  • 6:48 - 6:50
    تعلیم کا کیا حال ہے ؟ نوجوانوں کے لئے
  • 6:50 - 6:52
    اور بڑی عمر کے افراد کے لئے بھی؟
  • 6:52 - 6:55
    ان سب چیزوں سے قطع نظر،
    ہم نے یہ جانا کہ
  • 6:55 - 6:58
    لوگ دولت کی عدم مساوات کو
    پسند نہیں کرتے
  • 6:58 - 7:02
    مگر کچھ اور چیزیں جہاں عدم مساوات،
    جو حقیقتاً دولت کا نتیجہ ہیں
  • 7:02 - 7:04
    ان کے لئے ناقابل برداشت ہیں
  • 7:04 - 7:08
    مثلاً صحت اور تعلیم کی
    فراہمی میں عدم مساوات
  • 7:08 - 7:10
    ہم نے یہ بھی دیکھا کہ لوگ اس وقت
    خاص طور پر کشادہ فکر ہوتے ہیں
  • 7:10 - 7:13
    جب عدل کے لئے تبدیلی کی بات کی جائے
    ان لوگوں کے لئے
  • 7:13 - 7:15
    جن کی اپنی مرضی بہت کم ہوتی ہے
  • 7:15 - 7:17
    بنیادی طور پر نوزائیدہ اور
    چھوٹے بچوں کے لئے
  • 7:17 - 7:22
    کیوں کہ ہمارے خیال میں وہ
    اپنی اس حالت کے خود ذمہ دار نہیں ہیں
  • 7:22 - 7:24
    بہرکیف، وہ کیا سبق ہیں،
    جو ان باتوں سے ملتے ہیں؟
  • 7:24 - 7:26
    ہمارے سامنے دو فرق ہیں:
  • 7:26 - 7:28
    ایک معلومات کا فرق ہے،
    اور دوسرا آرزو مدندی کا
  • 7:28 - 7:31
    علمیت کا فرق وہ ہے،
    جس کے بارے میں ہم سوچتے ہیں کہ
  • 7:31 - 7:32
    کیسے لوگوں کو
    باشعور کیا جائے
  • 7:32 - 7:35
    کیسے انھیں عدم مساوات پر
    ایک مختلف زاویہ نظر دیا جائے
  • 7:35 - 7:39
    کہ صحت اور تعلیم کے نقطہ نظر سے
    عدم مساوات کے کیا مضمرات ہیں
  • 7:39 - 7:41
    اسی طرح حسد، جرائم کی شرح
    اور دیگر مضمرات؟
  • 7:41 - 7:43
    پھر ہمیں سامنا ہے آرزومندی کے فرق کا
  • 7:43 - 7:47
    ہم کیسے لوگوں کو سمجھائیں کے
    ہماری حقیقی طلب کیا ہے؟
  • 7:47 - 7:50
    آپ نے "رالز" کی تعریف کو سنا،
    کہ وہ کس انداز سے اس دنیا کو دیکھتا تھا
  • 7:50 - 7:52
    اندھی آزمائش کا طریقہ
  • 7:52 - 7:55
    ہماری خودغرضانہ امنگوں سے بالاتر
  • 7:55 - 7:57
    کیسے اس سب پر معیار کے مطابق
    عملدرامد کرسکتے ہیں
  • 7:57 - 8:00
    ایک وسیع پیمانے پر؟
  • 8:00 - 8:03
    اور آخر میں ہمارے سامنے
    عمل کا فرق ہے۔
  • 8:03 - 8:06
    ہم چیزوں کو کیسے لیتے ہیں،
    اور کیسے کوئی عملی اقدام کرتے ہیں
  • 8:06 - 8:09
    میرے خیال میں اس جواب کا کچھ حصہ
    ان لوگوں کے متعلق سوچنے میں ہے
  • 8:09 - 8:12
    جیسے نوزائیدہ اور ننھے بچے
    جن کے پاس کچھ اختیار نہیں
  • 8:12 - 8:16
    کیوں کہ لوگ اس بارے میں
    پھر بھی کچھ کرنے کو تیار ہیں
  • 8:16 - 8:21
    قصہ مختصر، میرے خیال میں اگلی بار
    جب آپ بیئریا شراب خریدنے جائیں،
  • 8:21 - 8:25
    تو سب سے پہلے یہ سوچیں، کہ وہ کیا ہے
    جسے آپ کا تجربہ حقیقت سمجھتا ہے
  • 8:25 - 8:28
    اور وہ کیا ہے جسے آپ کا تجربہ محض
    ایک جھوٹا بہلاوہ مانتا ہے
  • 8:28 - 8:30
    کیا یہ امیدوں کا تانا بانا تو نہیں ہے؟
  • 8:30 - 8:33
    اور پھر سوچیں کہ اس کا آپ کی زندگی کے
    دیگر فیصلوں پر کیا اثر پڑسکتا ہے
  • 8:33 - 8:35
    اور شائد کچھ اصولی سوالات پر بھی
  • 8:35 - 8:37
    جو ہم سب پراثرانداز ہوتے ہیں
  • 8:37 - 8:38
    بہت بہت شکریہ
  • 8:38 - 8:41
    ( تالیاں )
Title:
ہم اس دنیا کو کتنا مساوی دیکھنا چاہتے ہیں؟ آپ حیران رہ جائیں گے
Speaker:
ڈین ایرئیلی
Description:

ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات سے ہم میں سے کوئی بھی خوش نہیں، مگر کیوں؟ ڈین ایرئیلی اپنی اس تحقیق میں کچھ ایسے حیران کن حقائق سے پردہ اٹھا رہے ہیں۔ جانئے کہ ہم اور آپ اپنے ذہنوں میں دولت کی تقسیم اوراس سے متعلقہ حقائق کے کیا تصورات رکھتے ہیں، اور حقیقت جو ان تصورات کے برعکس ہے، کیا ہے؟

more » « less
Video Language:
English
Team:
closed TED
Project:
TEDTalks
Duration:
08:53

Urdu subtitles

Revisions