Return to Video

اِن خواتین کے لیے پڑھنا ایک دلیرانہ عمل ہے

  • 0:00 - 0:03
    ایک عرب خاتون فوٹوگرافر کے طور پر،
  • 0:03 - 0:08
    مجھے اپنے منصوبوں کے لیے ذاتی تجربات
    سے ہمیشہ بہت ہمت ملی ہے۔
  • 0:08 - 0:10
    علم کے متعلق جو جذبہ مجھ میں پیدا ہوا،
  • 0:10 - 0:13
    جس نے مجھے قابل بنایا ایک بہتر زندگی
    کی راہ میں حائل رکاوٹیں گرانے میں
  • 0:13 - 0:18
    وہ ولولہ تھا میرے منصوبے
    'میں پڑھوں میں لکھوں' کے پیچھے۔
  • 0:18 - 0:19
    ابتدا میرے اپنے تجربے سے ہوئی،
  • 0:19 - 0:23
    جیسا کہ ابتدا میں مجھے اعلٰی تعلیم
    حاصل کرنے کی اجازت نہیں ملی تھی،
  • 0:23 - 0:27
    میں نے فیصلہ کیا دوسری خواتین
    کی کہانیاں کھوجنے اور لکھنے کا
  • 0:27 - 0:30
    جنہوں نے تعلیم کے ذریعے
    اپنی زندگیاں بدلیں،
  • 0:30 - 0:34
    ان رکاوٹوں کی نشاندہی کرتے اور ان پر سوال
    اٹھاتے ہوئے، جن کا انہوں نے سامنا کیا۔
  • 0:34 - 0:38
    میں نے تعلیمِ نسواں سے متعلق
    بہت سے موضوعات کا احاطہ کیا،
  • 0:38 - 0:40
    عرب ممالک میں موجود اختلافات
    کو مدنظر رکھتے ہوئے
  • 0:40 - 0:44
    بوجہ معاشی اور سماجی عوامل۔
  • 0:44 - 0:48
    ان مسائل میں شامل ہے خواتین کی ناخواندگی،
    جو کہ اس خطے میں کافی زیادہ ہے؛
  • 0:48 - 0:52
    تعلیمی اصلاحات؛
    سکول چھوڑ جانے والے طلبہ کے لیے پروگرام؛
  • 0:52 - 0:56
    اور جامعات کے طالب علموں
    کی سیاسی سرگرمیاں۔
  • 0:56 - 0:57
    جب میں نے یہ کام شروع کیا،
  • 0:58 - 1:01
    خواتین کو شمولیت کے لیے
    راضی کرنا ہمیشہ آسان نہ تھا۔
  • 1:01 - 1:03
    البتہ ان کو سمجھانے کے بعد
  • 1:03 - 1:06
    کہ کیسے انکی کہانیاں دوسری خواتین
    کی زندگیوں پر اثر کر سکتی ہیں،
  • 1:06 - 1:11
    کیسے وہ اپنی برادری کے لیے مثالی نمونہ
    بن جائیں گی، کچھ نے اتفاق کیا۔
  • 1:11 - 1:14
    ایک باہمی تعاون کا اور قابلِ انعکاس
    طریقہ اپناتے ہوئے،
  • 1:14 - 1:17
    میں نے ان کو ان کے الفاظ اور
    خیالات لکھنے کو کہا
  • 1:17 - 1:19
    ان کی اپنی تصاویر پر۔
  • 1:19 - 1:22
    وہ تصاویر پھر کچھ کلاسوں میں دکھائی گئیں،
  • 1:22 - 1:25
    جنہوں نے دوسری خواتین کو متاثر کیا
    اور ان کی حوصلہ افزائی کا کام کیا
  • 1:25 - 1:30
    جو ملتی جلتی تعلیم اور
    حالات سے گزر رہی تھیں۔
  • 1:30 - 1:33
    یمن سے ایک استاد، عائشہ نے لکھا،
  • 1:33 - 1:36
    ''میں نے تعلیم حاصل کی
    تاکہ میں خود مختار بنوں
  • 1:36 - 1:40
    اور ہر چیز کے لیے مردوں
    پر انحصار نہ کروں۔''
  • 1:40 - 1:43
    مصر سے امّ السعد میرے پہلے
    حصہ داروں میں سے ایک تھی۔
  • 1:43 - 1:47
    جب ہم پہلی بار ملے، وہ
    بمشکل اپنا نام لکھ سکتی تھی۔
  • 1:47 - 1:49
    وہ ایک نو- ماہی خواندگی پروگرام
    میں شریک تھی
  • 1:49 - 1:52
    جو ایک مقامی غیرسرکاری تنظیم
    قاہرہ کے مضافات میں چلا رہی تھی۔
  • 1:52 - 1:54
    مہینوں بعد، وہ مذاق کر رہی
    تھی کہ اس کے شوہر نے
  • 1:54 - 1:57
    اس کو کلاس سے اٹھانے کی دھمکی دی تھی،
  • 1:57 - 1:59
    جب اس کو پتہ چلا کہ اس کی اب خواندہ بیوی
  • 1:59 - 2:02
    اس کے فون کے پیغامات پڑھ رہی تھی۔
  • 2:02 - 2:03
    (قہقہے)
  • 2:03 - 2:05
    شرارتی امّ السعد۔
  • 2:05 - 2:09
    ظاہر ہے، امّ السعد نے اس لیے
    پروگرام میں حصہ نہیں لیا تھا۔
  • 2:09 - 2:14
    میں نے دیکھا کہ وہ کیسے اپنے روزمرہ کاموں
    پر اختیار حاصل کرنے کے لیے ترس رہی تھی،
  • 2:14 - 2:16
    چھوٹے امور جن کو ہم اہمیت نہیں دیتے،
  • 2:16 - 2:20
    بازار میں پیسے گننے سے لے کر اپنے بچوں کی
    سکول کے تفویض کردہ کام میں مدد کرنے تک۔
  • 2:20 - 2:23
    اپنی غربت اور اپنی برادری
    کی ذہنیت کے باوجود،
  • 2:23 - 2:25
    جو تعلیمِ نسواں کو اہمیت نہیں دیتی،
  • 2:25 - 2:28
    امّ السعد، اپنی مصری ہم جماعتوں کے ساتھ،
  • 2:28 - 2:31
    لکھنا پڑھنا سیکھنے کے لیے بے تاب تھی۔
  • 2:31 - 2:35
    تیونس میں، میری ملاقات اسماء سے ہوئی،
  • 2:35 - 2:38
    ان چار سرگرم کارکن خواتین میں سے
    ایک جن سے میں نے گفتگو کی۔
  • 2:38 - 2:42
    بائیوانجینرئنگ کی یہ سیکولر طالب علم
    سوشل میڈیا پر کافی متحرک ہے۔
  • 2:42 - 2:47
    اس کے ملک کے متعلق، جس نے اس قیمتی
    چیز کو کھوجا جسے عرب بہار کہا جاتا ہے،
  • 2:47 - 2:51
    اس نے کہا، "میں نے ہمیشہ ایک نئے
    جراثیم کی دریافت کا خواب دیکھا ہے۔
  • 2:51 - 2:55
    اب، انقلاب کے بعد، ہر روز
    ہمارے پاس ایک نیا ہوتا ہے۔''
  • 2:55 - 2:59
    اسماء کا اشارہ خطے میں بڑھتی
    مذہبی بنیاد پرستی کی طرف تھا،
  • 2:59 - 3:03
    جو ایک اور رکاوٹ ہے
    خاص طور پر خواتین کے لیے۔
  • 3:03 - 3:08
    سب خواتین جن سے میں ملی، ان میں سے یمن کی
    فائزہ نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔
  • 3:08 - 3:13
    آٹھ سال کی عمر میں فائزہ کو زبردستی
    سکول چھوڑنا پڑا جب اس کی شادی ہوئی۔
  • 3:13 - 3:16
    وہ شادی ایک سال رہی۔
  • 3:16 - 3:20
    14 سال کی عمر میں وہ ایک
    60 سالہ شخص کی تیسری بیوی بنی،
  • 3:20 - 3:25
    اور جب تک وہ 18 سال کی ہوئی،
    وہ تین بچوں کی طلاق یافتہ ماں تھی۔
  • 3:25 - 3:27
    اپنی غربت کے باوجود،
  • 3:27 - 3:33
    ایک انتہائی تنگ نظر معاشرے میں
    طلاق یافتہ ہونے کے باوجود،
  • 3:33 - 3:37
    اور واپس سکول جانے پر اپنے
    والدین کی مخالفت کے باوجود،
  • 3:37 - 3:42
    فائزہ کو معلوم تھا کہ اس کا اپنی زندگی پر
    اختیار پانے کا واحد راستہ تعلیم تھا۔
  • 3:42 - 3:43
    اب وہ 26 سال کی ہے۔
  • 3:43 - 3:46
    ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم
    سے اس کو امداد ملی
  • 3:46 - 3:49
    یونیورسٹی میں کاروبار کی پڑھائی
    کرنے کے لیے وظیفہ ۔
  • 3:49 - 3:52
    اس کا مقصد ہے نوکری تلاش کرنا،
    رہنے کے لیے جگہ کرائے پر لینا،
  • 3:52 - 3:54
    اور اپنے بچوں کو اپنے پاس واپس لانا۔
  • 3:55 - 3:59
    عرب ریاستیں زبردست تبدیلی سے گزر رہی ہیں،
  • 3:59 - 4:02
    اور مشکلات جن کا خواتین کو
    سامنا ہے وہ حد سے زیادہ ہیں۔
  • 4:02 - 4:04
    ان خواتین کی طرح جن کی میں نے تصاویر لیں،
  • 4:04 - 4:09
    مجھے بہت سی رکاوٹوں کو زیر کرنا پڑا
    وہ فوٹوگرافر بننے کے لیے جو میں آج ہوں،
  • 4:09 - 4:13
    بہت سے لوگ راستے میں مجھے بتاتے رہے
    کہ میں کیا کر سکتی ہوں اور کیا نہیں۔
  • 4:13 - 4:19
    امّ السعد، اسماء، اور فائزہ،
    اور عرب دنیا کی بہت میں سی خواتین،
  • 4:19 - 4:23
    دکھاتی ہیں کہ تعلیم کے راستے میں
    رکاوٹوں پر قابو پانا ممکن ہے،
  • 4:23 - 4:26
    جو ان کو معلوم ہے کہ
    بہتر مستقبل کا بہترین ذریعہ ہے۔
  • 4:26 - 4:30
    اور یہاں میں یاسمین کے ایک
    قول کے ساتھ اختتام کروں گی،
  • 4:30 - 4:34
    ان 4 سرگرم کارکن خواتین میں سے ایک
    جن سے میں نے تیونس میں گفتگو کی۔
  • 4:34 - 4:35
    یاسمین نے لکھا،
  • 4:35 - 4:37
    ''اپنے عقائد پر سوال کرو۔
  • 4:37 - 4:41
    وہ بنو جو آپ بننا چاہتے ہو،
    نہ کہ وہ جو وہ آپ کو بنانا چاہتے ہیں۔
  • 4:41 - 4:45
    ان کی غلامی مت قبول کرو کیونکہ
    تمہاری ماں نے تمہیں آزاد پیدا کیا تھا۔''
  • 4:45 - 4:47
    شکریہ۔
  • 4:47 - 4:52
    (تالیاں)
Title:
اِن خواتین کے لیے پڑھنا ایک دلیرانہ عمل ہے
Speaker:
لارا بوشانک
Description:

دنیا کے کچھ حصوں میں، نصف خواتین پڑھنے لکھنے کی بنیادی صلاحیت سے محروم ہیں۔ وجوہات مختلف ہیں، لیکن بہت سی صورتوں میں، باپ، شوہر، حتٰی کہ مائیں بھی خواندگی کو اہمیت نہیں دیتیں۔ فوٹوگرافر اور ٹیڈ فیلو لارا بوشانک نے کئی ممالک کا سفر کیا بشمول یمن، مصر اور تیونس تاکہ روشنی ڈال سکیں بہادر خواتین پر— سکول کی لڑکیاں، سیاسی کارکنان، 60 سالہ مائیں — جو شماریات کا مقابلہ کر رہی ہیں۔

more » « less
Video Language:
English
Team:
closed TED
Project:
TEDTalks
Duration:
05:05

Urdu subtitles

Revisions